واشنگٹن (جیوڈیسک) امریکی صدر نے فوج کے کسی بھی شعبے میں ٹرانس جینڈر یا مخنث افراد کو ملازمت فراہم نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ فیصلہ ملکی جرنیلوں اور فوجی ماہرین سے مشاورت کے بعد کیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹرانس جینڈرز کی فوج میں شمولیت کے حوالے سے سابق صدر باراک اوباما کی طرف سے متعارف کروائی گئی پالیسی کو ختم کر دیا ہے۔ باراک اوباما نے اپنے دور میں خواجہ سراؤں اور ہم جنس پرستوں کے لیے ملکی فوج کے دروازے کھولے گئے تھے لیکن اب صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ’کسی بھی کیپیسٹی‘ میں مخنث افراد کو فوج میں ملازمت فراہم نہیں کی جائے گی۔
اندازوں کے مطابق امریکی فوج کے ایک عشاریہ تین ملین حاضر سروس اہلکاروں میں سے ٹرانس جینڈرز کی تعداد پچیس سو سے سات ہزار کے درمیان بنتی ہے۔
متعدد ٹویٹس کرتے ہوئے امریکی صدر کا آج بدھ 26 جولائی کو کہنا تھا، ’’ہماری فوج کو فیصلہ کن اور زبردست کامیابی پر توجہ دینی چاہیے اور اس پر زیادہ طبی اخراجات کا بوجھ نہیں ڈالا جا سکتا۔‘‘
قبل ازیں سن دو ہزار سولہ میں امریکی وزیر دفاع ایش کارٹر نے اعلان کیا تھا کہ مخنث افراد اب کھلے عام فوج میں ملازمت کر سکتے ہیں اور انہیں صرف ہیجڑا ہونے کی وجہ سے ملازمت سے فارغ یا پھر فوج سے الگ نہیں کیا جائے گا۔
امریکی صدر کی ٹوئٹس کے فورا بعد ہی ان پر اس حوالے سے تنقید کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ ڈیموکریٹک رہنما نینسی پیلوسی نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس پابندی کو ’ظالمانہ اور نفرت انگیز‘ قرار دیا ہے۔
امریکا کے مشہور وکیل اور پام سینٹر کے ڈائریکٹر آرون بیلکن نے امریکی صدر کے اس فیصلے کو ’’چونکا دینے والا، جاہلانہ اور ملکی فوج کے ساتھ ساتھ مخنث فوجیوں پر ایک حملہ‘‘ قرار دیا ہے۔
میساچیوسٹس کے ایک اپوزیشن ڈیموکریٹ سینیٹر ایڈ مارکی نے کہا کہ فوج میں خدمات سرانجام دینے والے خواجہ سراء پریشانی کا باعث نہیں ہیں بلکہ وہ وطن کی محبت سے سرشار ہیں۔
دریں اثناء امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے کہا ہے کہ امریکی صدر کی طرف سے ٹرانس جینڈرز پر پابندی کے بعد وہ فوج کو مستقبل قریب میں ایک نظرثانی شدہ ہدایت نامہ جاری کریں گے۔