نیویارک (جیوڈیسک) امریکی جریدے کی رپورٹ میں دعوی کیا گیا ہے کہ سی آئی اے نے افغانستان کے مشرقی اور جنوبی علاقوں سے انخلا کا عمل شروع کردیا ہے، اورامریکی کمانڈرز کو خدشہ ہے کہ اس صورتحال میں طالبان اور القاعدہ دوبارہ منظم ہوسکتے ہیں ، امریکی جریدے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سی آئی اے نے افغانستان سے انخلا کے عمل کا آغاز کردیا ہے۔
صدارتی ترجمان ایمل فیضی نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ سی آئی اے نے اپنے لیے کام کرنے والے مقامی جنگجووٴں سے کانٹریکٹس ختم کرنا شروع کردیے ہیں، ان میں چند انتہائی اہم مقامات پر کام کررہے تھے ، ترجمان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں افغان حکومت کو پیشگی اطلاع نہیں دی گئی۔
بعد میں افغان حکومت نے ان جنگجووٴں کو افغان انٹیلی جنس سروس میں سی آئی اے کی تنخواہ پر ہی ملازمت کی پیش کش کی لیکن جواب میں صرف 100 افراد نے ہی کام کرنے کی حامی بھری، رپورٹ کے مطابق تعداد کم ہونے کی وجہ سے سی آئی اے کی خالی کی گئی جگہ پْر کرنا افغان فورسز کے بس کی بات نہیں۔
جس سے نہ صرف امریکی اور افغان حکام پر دہشتگرد حملے بڑھنے کا خدشہ ہے ،بلکہ اس سے القاعدہ کو پنپنے کا ایک اور موقع ملنے کے ساتھ نئے دہشتگرد منصوبوں کی تیاری کا بھی اندیشہ ہے،امریکی حکام کے مطابق کنڑ میں سی آئی اے کے تربیت یافتہ کچھ نیم فوج دستے ممکنہ امن معاہدے کی امید پر پہلے ہی طالبان میں شامل ہوگئے ہیں۔
کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ امریکی اب مزید نہ ان کو تنخواہ دے سکتے ہیں اور نہ ہی تحفظ ، سی آئی اے حکام نے گذشتہ ہفتے امریکی اراکین پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ ایجنسی افغان علاقوں سے آہستہ آہستہ اپنے اڈے بند کررہی ہے ، کیونکہ سی آئی اے لیبیا جیسی خطرناک صورتحال کا دوبارہ سامنا نہیں کرنا چاہتی، اوباما انتظامیہ افغانستان سے نکلنے کے بعد بھی یہاں 10 ہزار فوجی چھوڑنے کے حق میں ہے تاہم اس سلسلے میں افغان صدر کرزئی کا سیکیورٹی معاہدے پر دستخط نہ کرنا بڑی رکاوٹ ہے۔