افغانستان (جیوڈیسک) امریکی محکمہ دفاع کے سربراہ افغانستان کے ایک مختصر دورے پر ہیں، جہاں وہ ملکی صدر اشرف غنی اور وہاں تعینات امریکی اور نیٹو افواج کے سربراہ سے ملاقاتیں کریں گے۔ افغانستان میں قیام امن کے لیے کوششیں ان دنوں زوروں پر ہیں۔
قائم مقام امریکی وزیر دفاع پیٹرک شیناہن افغانستان کے غیر اعلانیہ دورے پر ہیں۔ شیناہن پیر کی صبح دارالحکومت کابل پہنچے، جہاں وہ صدر اشرف غنی سے ملاقات کر رہے ہیں۔ اس دورے سے قبل دوران پرواز انہوں نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے جاری امن عمل اور مذاکرات میں کابل حکومت کا شامل کیا جانا لازمی ہے۔
افغانستان میں سالہا سال سے جاری جنگ کے خاتمے اور قیام امن کے لیے امریکا اور طالبان کے مابین مذاکراتی عمل جاری ہے۔ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں پچھلے ماہ اور روسی دارالحکومت ماسکو میں پچھلے ہفتے منعقدہ مذاکرات میں پیش رفت دیکھی گئی تھی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان میں امریکی فوج کے کردار کو محدود کرنا چاہتے ہیں جس سے ایسے خدشات بھی بڑھ گئے ہیں کہ امریکا کہیں کابل حکومت اور طالبان کے مابین کوئی امن معاہدہ طے کرائے بغیر ہی افغانستان سے اپنی افواج کے مکمل انخلا کا فیصلہ نہ کر لے۔ افغانستان میں اس وقت تقریبا چودہ ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں۔
پینٹاگون کے قائم مقام سربراہ شیناہن افغانستان میں نیٹو اور امریکا کے اعلی ترین فوجی کمانڈر، جنرل اسکاٹ مِلر سے بھی آج پیر کو ملاقات کریں گے۔ شیناہن نے کابل پہنچنے سے قبل البتہ واضح کر دیا تھا کہ امریکی فوج کا انخلا شروع کرنے کے لیے فی الحال ان کے پاس کوئی احکامات نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا، افغانستان میں ہماری افواج کی تعیناتی امریکا میں سلامتی اور خطے میں استحکام کا سبب ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے جاری عمل میں فی الحال کابل حکومت شامل نہیں۔ طالبان کابل حکومت کے نمائندوں سے بات چیت پر رضامند بھی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دوحہ میں طالبان کے امریکیوں کے ساتھ مذاکرات اور پھر ماسکو میں افغان اپوزیشن رہنماں اور قبائلی عمائدین کے ساتھ بات چیت میں بھی کابل حکومت کا کوئی نمائندہ شریک نہیں تھا۔
اس پر شیناہن کا کہنا تھا کہ افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے جاری امن عمل اور مذاکرات میں کابل حکومت کا شامل کیا جانا لازمی ہے۔ پینٹاگون کے قائم مقام سربراہ کے مطابق، مستقبل کا افغانستان کیسا ہو گا، اس بارے میں فیصلہ افغان شہریوں نے ہی کرنا ہے۔
ان کے بقول امریکا نے افغانستان میں سلامتی کی صورتحال میں بہتری کے لیے بے انتہا وسائل خرچ کیے ہیں تاہم اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلہ تو افغان شہریوں کو ہی کرنا ہے۔