پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پریس بریفنگ میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں سرد مہری کے تاثر کو دور کرنے کی ناکام کوشش کی۔پاکستانی وزیر خارجہ کا یہ تاثر دیرپا ثابت نہیں ہوا کیونکہ امریکا کی جانب سے روایتی ” ڈومور” کے مطالبے کو دوہرایا گیا۔ امریکی وزارت خارجہ کے باضابطہ تحریری بیان میں ترجمان محکمہ خارجہ نے کہا کہ ”پومپیو نے مذاکرات کے ذریعے افغانستان میں امن کے حصول کے لیے پاکستان کے اہم کردار کی نشاندہی کی اور پاکستان سے” تقاضا” کیا کہ دہشت گردوں اور شدت پسندوں کے خلاف متواتر اور فیصلہ کُن اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔۔۔ جبکہ پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان نے ٹوئٹر پر جاری ایک مختصر بیان میں کہا ہے کہ دونوں ملکوں کے وفود نے دو طرفہ، علاقائی اور بین الاقوامی معاملات پر بات چیت کی۔بیان کے مطابق امریکی ہم منصب سے بات چیت میں پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے باہمی تعلقات کو احترام اور اعتماد کے بنیاد پر نئی جہت دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی اولین ترجیح اس کا قومی مفاد ہوگا۔’ اہم بات یہ تھی کہ جب تک پاکستان اور امریکا کی جانب سے مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں ہوتا ۔ دونوں ممالک کے بیانات کو لیکر ” غلط فہمی” کا تاثر دور نہیں کیا جاسکتا۔امریکی وزیر خارجہ کی جانب سے پُرانے مطالبات کو دوہرانے ، پاکستان کی قربانیوں کا ذکر نہ کرنے سمیت دہشت گردی کے خلاف ریاست کی کامیابیوں کا ذکر تک نہیں کیا گیا۔ جس سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ امریکا کے سابق سی آئی اے چیف و موجودہ وزیر خارجہ کا پاکستان کے خلاف دئیے جانے والے بیانات سے رویوں میں کوئی فرق نہیں پڑا ۔ پاکستان کی جانب سے امریکی وفود کے استقبال کے حوالے سے بھارتی ہم منصب سے موازنہ بھی کیا گیا ۔ جس میں دو رائے قائم ہوئیں کہ امریکی وفد کے ساتھ سلوک سفارتی اصولوں کے مطابق نہیں تھا ۔ دوئم امریکا کی جانب سے پاکستان پر مسلسل پابندیوں و سخت گیر پالیسیوں کی وجہ سے اپنی ناراضگی کا تاثر دینا ضروری تھا۔
راقم انہی صفحات میں تحریر کرچکا تھا کہ نومنتخب وزیر اعظم عمران احمد خان نیازی کے لئے امتحان ہوگا کہ امریکی وزیر خارجہ کی آمد پر ماضی کے حکمرانوں کی طرح کیا وہ ائیر پورٹ استقبال کے لئے جائیں گے یا نہیں اور کیا سو ل و عسکری قیادت الگ الگ ملاقات کر پائیں گے ۔ تاکہ ریاست ستونوں کے ایک صفحے پر موجود ہونے کا مثبت تاثر عالمی برادری کو جائے۔ تاہم امریکی دفتر خارجہ کی ترجمان ہیدا نوئرٹ کے مطابق” وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے پاکستانی وزیراعظم عمران خان اور دیگر سویلین و عسکری قیادت سے ملاقات کی۔ اس موقع پر چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل جوزف ڈنفرڈ جونیئر ان کے ساتھ تھے۔وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ بھی ملاقات کی۔ علاوہ ازیں امریکی دفتر خارجہ کی ترجمان کے مطابق وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے پاکستانی چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر باجوہ کے ساتھ ملاقات میں نئی سویلین حکومت کو اقتدار کی ہموار منتقلی کا خیرمقدم کیا اور مضبوط جمہوری اداروں کی اہمیت نمایاں کی۔ وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے دونوں ممالک کے مابین انسداد دہشت گردی کے سلسلے میں تعلقات مضبوط بنانے کی امید پر زور بھی دیا۔اپنی تمام ملاقاتوں میں وزیر خارجہ نے افغان امن مذاکرات کے سلسلے میں پاکستان کے کردار کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ پاکستان کو علاقائی امن و استحکام کے لیے خطرے کا باعث دہشت گردوں اور جنگجوؤں کے خلاف پائیدار اور فیصلہ کن اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے”۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو ایک روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچے تھے، ان کے ہمراہ نائب معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی ایشیا ء ایلز ویلز، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل جوزف ڈنفورڈ اور افغانستان میں امریکہ کے نمائندہ خاص زلمے خیل داد بھی تھے۔امریکی وزیر خارجہ کا استقبال یقینی طور پر پاکستانی انتظامیہ کی جانب سے گرم جوش قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ ایک جانب امریکا جب پاکستان کے ساتھ تعلقات میں اعتماد سازی کی فضا کو سبوتاژ کردیتا ہے تو پاکستانی عوام اپنے حکمرانوں سے اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ وہ بھی اپنے رویوں کو عوامی امنگ کے مطابق رکھیں۔ پاکستانی وزیر اعظم کی جانب سے امریکی وزیر خارجہ کے ساتھ مختصر ملاقات میں کسی بڑے تعطل دور ہونے کا کوئی امکان موجود نہیں تھا لہذا یہ تاثر دینا دراصل خوش فہمی ہی قرار دی جا سکتی ہے ۔ لازمی امر یہی تھا کہ امریکا ، افغانستان کے حوالے سے اپنے پرانی روش پر قائم رہتے ہوئے وزرات خارجہ میں پاکستانی وزیر خارجہ کے ساتھ بھی ایک نکاتی ایجنڈا لے کر آئے تھے ۔ جسے ہم ” ڈو مور” کا نام یتے ہیں۔امریکا کے خصوصی مشیر زملے خلیل زادہ کی تعیناتی اسی امر کی جانب توجہ دلاتی ہے کہ امریکا ، افغانستان کے حوالے سے پاکستان سے اپنی مرضی کے مطابق حل چاہتا ہے۔
امریکا اور پاکستان کی جانب سے جاری بیانات کے تضادات نے دوسری مرتبہ اس بات کو دوبارہ موضوع بحث بنایا کہ امریکا و پاکستان کے درمیان گفتگو کے اہم موضوع کو بیان کرنے میں کیا قباحت ہے۔ یہ سب جانتے ہیں کہ امریکی وزیر خارجہ کے پاکستان آمد سے قبل امریکی انتظامیہ نے نام نہاد کولیشن سپورٹ فنڈ کو روکتے ہوئے پینٹاگون کے ترجمان نے بتایا کہ ‘جنوبی ایشیاء سے متعلق نئی حکمت عملی میں پاکستان اپنا فیصلہ کن کردار ادا نہیں کرسکا اس لیے 30 کروڑ ڈالر روک دیئے گئے ہیں’۔انہوں نے بتایا کہ اگر کانگریس منظوری دے گی تو مذکورہ رقم’دیگر اہم منصوبوں’ پر خرچ کریں گے۔”امریکا اس سے قبل بھی پاکستان کی کولیشن سپورٹ فنڈ کے نام پر گزشتہ سال جولائی 2017میں پانچ کروڑ ڈالر روک دیئے گئے تھے ۔ ” پینٹاگون کے ترجمان ایڈَم اسٹمپ کا کہنا تھا کہ ‘سیکریٹری دفاع جم میٹس نے کانگریس کی دفاعی کمیٹیوں کو بتایا کہ وہ اس بات کی تصدیق نہیں کر سکتے کہ پاکستان نے، مالی سال 2016 کے لیے کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں اس ادائیگی کے لیے حقانی نیٹ ورک کے خلاف خاطر خواہ اقدامات اٹھائے۔”واضح طور پر امریکی وفد کے مختصر دورہ ایک نکاتی ایجنڈے پر مشتمل تھاکہ افغانستان میں ثالثی کے لیے پاکستان امریکا کی مدد کرے، ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان کا تعاون نہ ملا تو جو ہوگا وہ جنرل نکلسن اور جنرل ملر بتاچکے ہیں۔
وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل جوزف ڈنفرڈ نے پی اے ایف بیس نور خان میں میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ابھی ہم نے بہت سا کام کرنا ہے، بہت سی بات چیت ہونا ہے، مگر کھل کر کہا جائے تو دونوں ممالک کی افواج کے باہمی تعلقات اس وقت بھی برقرار رہے جب بعض دیگر تعلقات کی صورت اچھی نہیں تھی۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا اس بات چیت کے دوران امریکہ کی جانب سے بڑی تعزیری کارروائی کا کوئی انتباہ بھی جاری کیا گیا جس کی رو سے مخصوص پاکستانی افراد کے خلاف مالیاتی پابندیاں لگ سکتی ہوں۔۔۔ کہ اگر وہ اپنا رویہ تبدیل نہیں کرتے تو مزید اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں؟ تو وزیر خارجہ پومپئو نے جواب دیا کہ ہم نے ان پر واضح کر دیا کہ وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے مشترکہ وعدوں کی تکمیل کریں اور انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا۔ ہم نے بات چیت اور معاہدوں پر بہت سا وقت صرف کیا ہے مگر ابھی تک ہم ان پر عملدرآمد کے قابل نہیں ہو سکے۔ اسی لیے میرے اور وزیر خارجہ قریشی نیز وزیراعظم کے مابین وسیع تر اتفاق پایا گیا کہ ہمیں ایسے عملی اقدامات شروع کرنے کی ضرورت ہے جن سے ایسے نتائج سامنے آئیں جو دونوں ممالک کے مابین اعتماد کو جنم دیں۔ ملاقاتوں میں اسی بات پر زور دیا گیا۔
افغانستان میں ثالثی کے حوالے سے امریکا یہ سمجھتا ہے کہ جیسے پاکستان ، بٹن دبا دے تو افغانستان میں امن قائم ہوجائے گا۔حالاں کہ پاکستان نے جب جب افغان طالبان و دیگر گروپوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کی تو امریکا ، کابل حکومت اور بھارت گٹھ جوڑ نے غیر متوقع حالات پیدا کردیئے گئے۔ افغان طالبان جو کہ اس وقت افغانستان کے ایک بڑے رقبے پر عمل داری رکھتے ہیں اور سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر ہیں ، ان پر پاکستان کا اثر رسوخ ماضی کے مقابلے میں کم ہوچکا ہے۔ جب سے عالمی سازش کے تحت داعش ( خراسان شاخ) کو افغانستان میں پھلنے پھولنے کا موقع دیا گیا اور انہیں کمک فراہم کی گئی تاکہ امریکا جو کہ افغانستان میں 17برس کی طویل لاحاصل جنگ میں ہار چکا ہے ۔ داعش کی سپورٹ کے افغان طالبان کو کمزور کرے۔ اس صورتحال میں داعش کی افغانستان کی موجودگی اور امریکا پر سہولت کاری کے الزامات کے بعد روس اور ایران کی جانب افغان طالبان کا جھکائو بڑھ گیا ۔ ایران اور روس نے بھی خطے میں داعش کے بڑھتے اثر رسوخ کو روکنے کے لئے افغان طالبان کو مضبوط کرنا شروع کردیا ۔ جس کے بعد سے اب افغان طالبان کے لئے پاکستان محفوظ پناہ گاہ نہیں رہا۔
امریکا دراصل بھارت کی ایما پر مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندوں کے خلاف پاکستان کی اخلاقی حمایت کو بزور طاقت و سازش سے دبانے کے لئے امریکا کو استعمال کررہا ہے۔ امریکا ، بھارت تعلقات کی نوعیت ماضی کے مقابلے میں مزید قریب ہونا شروع ہوئی تاہم بھارت کے لئے امریکا کی جانب سے ” نرم گوشہ” اب ایک نئی صورتحال کا سامنا کررہا ہے۔امریکا نے ایران کے خلاف نئی پابندیوں کا اطلاق کرنا شروع کردیا ہے۔ امریکا ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو ختم کرچکا ہے ۔ اس وقت بھارت کے ساتھ ایران کے تعلقات بھی تاریخی نوعیت کے حامل ہیں۔ دونوں ممالک کے کئی مشترکہ مفادات ہیں۔ جس میں سب سے بڑا مفاد ، ایران سے عالمی ریٹ کے مقابلے میں سستے داموں تیل کا حصول ہے۔ بھارت اپنی تیل کی ضروریات کا بڑا حصہ ایران سے حاصل کرتا ہے۔
اگر امریکا ، بھارت کو ایران سے تیل کے حصول پر پابند کرنے کی کوشش کرتا ہے تو امریکا کو افغانستان میں بھارت کے بڑھتے کردار کی حمایت حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ اسی طرح بھارت ، امریکی مخالفت کے باوجود روس سے اہم فوجی ساز و سامان بھی حاصل کررہا ہے ۔ جو امریکا انتظامیہ کے لئے ناگواری کا سبب بن رہا ہے۔ لیکن چین و ایران کی ریاستوں کو دبانے کے لئے بھارت کو مہرہ بنانے کے لئے امریکا نے ” نرم گوشہ” کی پالیسی کو اختیار کی ہوئی ہے۔ لیکن امریکا اس بات کو بھی اچھی طر ح جانتا ہے کہ افغانستان میں مستقل امن کا حل بھارت کے پاس نہیں ہے اس لئے پاکستان کی کمزور خارجہ پالیسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ماضی کی غلطیوں پر ” ڈومور” کے مطالبے کو دوہرانے کے ساتھ ساتھ مالی و دفاعی طور پر کمزور کرنے کی روش اختیار کئے ہوئے ہے۔ امریکا ، پاکستان کا کبھی بھی قابل اعتماد دوست ملک نہیں رہا ہے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ امریکا کے مفادات کے تابع پاکستان کی ترجیحات بنتی چلی گئی اور ماضی کی غلط خارجہ پالیسوں کی وجہ سے پاکستان اس وقت معاشی بحران میں بُری طرح پھنس چکا ہے۔ وزیر اعظم عمران احمد خان نیازی اپوزیشن میں ہوتے ہوئے امریکا پالیسی پر جس طرح حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ۔ اب موجودہ صورتحال کو اتنا ضرور سمجھ چکے ہونگے امریکا چاہے بھی تو روکے گئے فنڈز کو جاری نہیں کرسکتا۔بلکہ یہ رقم کسی دوسرے ملک یا پروگراموں میں استعمال کی جائے گی۔
زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو حقیقی معنوں میں امریکا افغانستان سے جانا ہی نہیں چاہتا کیونکہ اس نے چین کے عظیم منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے تمام ماسٹر پلان افغانستان میں تیار کئے ہوئے ہیں۔ سی پیک منصوبہ پاکستان کے لئے بڑا منصوبہ ہے لیکن در حقیقت یہ چین کے لئے پاکستان کی سطح پر سی پیک چھوٹا اور عالمی سطح پر ون بیلٹ ون روڈ عظیم معاشی منصوبہ ہے۔ چین رواں صدی کے سب سے بڑے منصوبے کے تحت ایشیا، افریقہ،یورپ سمیت دنیا کے70ممالک کو زمینی و بحری راستے کے ذریعے جوڑدینا چاہتا ہے۔جس کا مطلب چینی مصنوعات نئی معاشی طاقت اور دیگر ممالک کا امریکا پر معاشی انحصار کم ہوجائے گا۔چین بھی افغانستان میں پائدار امن کا خواہاں ہے ۔ کیونکہ پاکستان سے شروع ہونے والا یہ عظیم منصوبہ افغانستان سے گذر کر ہی امریکا کو معاشی طور پر تباہ کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔چین 2049تک اس منصوبے کو مکمل کرنا چاہتا ہے۔ اس منصوبے میں روس ، نیوزی لینڈ ، فرانس، انگلینڈ سمیت کئی اہم ممالک شامل ہوچکے ہیں ۔ گزشتہ برس چائنہ ڈیولپمنٹ بنک نے اپنی تیسری سہ ماہی رپورٹ میں بتایا تھا کہ ون بیلٹ ون روڈ کے تحت 900منصوبوں کا افتتاح ہوچکا ہے جس کی لاگت 900ارب ڈالرز کے قریب ہے۔ون بیلٹ ون روڈ کے عالمی منصوبے کا جائزہ لیا جائے تو چین کے اس عظیم منصوبے کی وجہ سے ورلڈ اکنامک ٹائیگر بن کر ابھر رہا ہے ۔ جو امریکا کے مفادات کو بڑے نقصان سے دوچار کریں گی۔ نیٹوکے 50ممالک کی ایک لاکھ 30ہزارسے زاید فوجی ہونے کے باوجود امن قائم نہیں ہو سکا تھا تو صرف چند ہزار امریکی فوجی افغانستان میں کیونکر امن قائم کرسکتے ہیں۔ امریکا کا افغانستان میں اپنی کٹھ پتلی حکومتوں کے ذریعے خطے میں خانہ جنگی اور بد امنی کو فروغ دینا ہی اولین مقصد ہے۔
چین کو عالمی روٹ کے لئے راستہ فراہم نہ کرنے اور سی پیک منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے امریکا پاکستان کو دبائو میں رکھنا چاہتا ہے اسی لئے امریکی انتظامیہ زمینی حقائق کو تسلیم کرنے کے بجائے عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے مختلف بہانے تراش کر گمراہ کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہے۔ حالاں کہ پاکستان ، امریکا کو واضح طور پر کہہ چکا ہے کہ امریکا نشاندہی کرے ، پاکستان خود کاروائی کرے گا ۔ لیکن اس کے باوجود امریکا کے نت نئے مطالبے خطے کے امن کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔بھارت کو من پسند مراعات دے کر خطے میں طاقت کا توازن خراب کررہا ہے۔پاکستان کے مختصر دورے کے بعد امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو بھارت پہنچ چکے ہیں۔ ” ٹو پلس ٹو ” قرار دیئے جانے والے اس مذاکرات میں امریکی سینٹرل کمانڈ اور بھارتی فوج کے درمیان تعاون بڑھانے سمیت روسی میزائلوں کی خریداری اور ایرانی تیل کی درآمدات کے اہم معاملات پر ایک کلیدی سمجھوتہ طے پایا جانے کے امکانات پر مشترکہ اعلامیہ دونوں ممالک نے جاری کردیا ہے ۔ جس میںبھارت کو دفاعی نظاموں کی جدید ٹیکنالوجی تک رسائی اور بھارتی و امریکی فوجوں کو اطلاعات کی شراکت داری یقینی ہوجائے گی۔
پاکستان کی نئی حکومت ، امریکا کے ساتھ کس نہج پر تعلقات استوار کرسکی گی؟۔ اس حوالے سے امریکی رویئے میں تبدیلی کا رجحان صرف اسی صورت میں دیکھنے میں آسکتا ہے۔ جب پاکستان بھارتی مطالبات کو امریکی کے کہنے پر قبول کرلے۔بظاہر سیاسی طور پر وزیر اعظم عمران احمد خان نیازی کے بلند بانگ دعوے قابل عمل نظر نہیں آرہے کہ امریکا کے دبائو کو کم کرسکیں ۔ اس لئے نئی حکومت عوام میں ماضی کی حکومتوں کی طرح خوش فہمی میں مبتلا کر کے پاک۔ امریکا تعلقات کی بہتری کا گمان کررہی ہے۔بلاشبہ اس وقت پاکستان کی نئی حکومت کو بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے لیکن عوام سے کئے جانے والے وعدوں میں امریکی غلامی سے نجات کے لئے کشکول توڑنے اور عالمی مالیاتی اداروں سے قرض نہ لینے کے دعوی زمین بوس ہوچکے ہیں۔ابتدائی چنددنوں میں عوام کو بجلی ، گیس کے بلوں میںبھاری بھرکم اضافے کی منظوری سے مہنگائی کا نہ رکنے والا سونامی اٹھنے کا خدشہ ہے۔ اس وقت پاکستان بھاری قرضوں کے بوجھ میں دھنسا ہوا ہے ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو ملنے والی رقم کو امریکا کی جانب سے روکنے کا عمل اور پاکستان پر کئی اطراف سے دبائو بڑھانے کی روش سے حالات مزید بے یقینی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔امریکی عہدے دار پاکستان کے خلاف جارحانہ انداز اختیار کئے ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم عمران احمد خان نیازی اگلے مہینے اقوام متحدہ کے سربراہ اجلاس میں شریک نہیں ہو رہے۔ گو کہ عسکری قیادت کی جانب سے نئی حکومتی انتظامیہ کو زمینی حقائق سے آگاہ کردیا گیا ہے اور جی ایچ کیو میں8گھنٹوں سے زائد طویل بریفنگ میں وزیر اعظم پر کئی اہم معاملات واضح ہوچکے ہونگے کہ سابق حکومت نے چار برس وزیر خارجہ کیوں نہیں رکھا تھا۔
نئی حکومت کو اس وقت عوام کو خوش فہمی میں مبتلا کرنے کے بجائے پارلیمنٹ میں بتانا چاہیے کہ امریکا کے مطالبات کو پورا کرنے کے لئے انہیں کیا فوائد اور ڈومور نہ مانے پر کن نقصانات کا سامنا ہوگا ۔امریکا کے ساتھ تعلقات کی نوعیت صرف اب یہی رہ گئی ہے کہ افغانستان میں لاحاصل جنگ میں مصروف امریکی فوجیوں کو لاجسٹک سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ باقی تجارتی طور پر امریکا اور پاکستان کی اصل تجارت سے بھی قوم کو آگاہ کرنا ضروری ہے کہ امریکا سے تجارتی طور پر کتنے ارب ڈالر ز کا کاروبار ہورہا ہے۔نئی حکومت کو درپیش مشکلات کا ادرک پاکستانی قوم کو بھی ہے کہ امریکا سے جنگ بھی نہیں کی جا سکتی اور امریکا کے تمام مطالبات تسلیم بھی نہیں کئے جاسکتے ۔ لیکن تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مربوط خارجہ پالیسی بنا کر مضبوط پاکستان بنانے کی راہ ضرور ہموار کی جا سکتی ہے۔بد قسمتی سے پاکستان کی خارجہ پالیسی موسم کی طرح رنگ بدلتی رہی ہے ۔ اس روش کو روک کر اب امریکی ڈکٹیشن سے دوری اختیار کرلی جائے تو یہ بہتر ہوگا ۔ہم جتنی قوت امریکا کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لئے لاحاصل خرچ کررہے ہیں اگر یہی قوت دیگر مغربی بلاک کے ممالک پر صرف کی جاتی تو اس وقت پاکستان کو امریکا کے ڈومور کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لئے تعطل دور ہوگیا ، کا تاثر دینے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یقینی طور پاکستان ، امریکا سمیت کسی بھی پڑوسی ملک سے جنگ نہیں چاہتا لیکن ایک غیور و غیرت مندملک و قوم بننے کے لئے ضروری ہے کہ ہماری ترجیحات وطن عزیز کے لئے ہوں ۔ پھر واقعتاََ ہم” ڈو مور ”کو” نو مور” کہہ سکتے ہیں ۔