چین (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا اور مغربی ممالک کی افواج کی افغانستان سے روانگی کے بعد چین کابل حکومت کے ساتھ سلامتی اور اقتصادی تعاون بڑھانے کی سرتوڑ کوشششوں میں مصروف ہے۔ چین اس خطے میں اپنا اثر و رسوخ مزید بڑھانا چاہتا ہے۔
چین کی سرکاری نیوز ایجنسی شینہوا کے مطابق چین، افغانستان اور پاکستان کے وزرائے خارجہ کی ایک ویڈیو میٹنگ میں اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ افغانسان سے غیر ملکی افواج کا انخلا ایک ذمہ دار اور منظم انداز ہونا چاہیے تاکہ افغانستان کی سلامتی کی صورتحال مزید خراب نہ ہو اور ‘دہشت گرد طاقتیں‘ دوبارہ قدم نہ جما سکیں۔
چینی وزیر خارجہ وانگ یی کے ایک بیان کے مطابق، ”تینوں ملکوں کو افغانستان اور اس کے ہمسایہ ملکوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے تعاون اور بات چیت کے عمل کو مضبوط بنانے کی اشد ضرورت ہے۔‘‘ چینی وزیر خارجہ کا مزید کہنا ہے، ”افغانستان سے غیرملکی افواج کے انخلاء کے ساتھ ہی افغانستان اور اس خطے کو سلامتی و استحکام کے نئے مسائل کا سامنا ہے۔ افغانستان میں امن اور مفاہمت کا عمل متاثر ہوا ہے جبکہ مسلح تنازعات اور دہشت گردانہ کارروائیاں بڑھ گئی ہیں۔‘‘
چین ایک طویل عرصے سے اس بات پر ناراض ہے کہ امریکی افواج افغانستان میں موجود ہیں لیکن اس حوالے سے بھی پریشان نظر آتا ہے کہ افغانستان کہیں دوبارہ ایسے انتہاپسند عناصر کی آماجگاہ نہ بن جائے، جو اس کے مسلم آبادی والے سرحدی علاقے سنکیانگ میں مسلح کارروائیاں کریں اور اس چینی سرحدی علاقے کی سکیورٹی کو خطرے میں ڈال دیں۔
چین افغانستان کے متعدد معدنی ذخائر کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے کی کوشش کر چکا ہے اور اب بھی کئی منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ طالبان اور دیگر گروپوں کی آپس میں اور حکومتی فورسز کے ساتھ جاری لڑائیاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بیجنگ حکومت کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑ رہے ہیں۔ چین پاکستان کے ساتھ بھی قریبی تعاون جاری رکھے ہوئے ہے تاکہ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت افغانستان کو بھی اس میں شامل کیا جا سکے۔
افغانستان کے طول و عرض میں پهیلے ہوے قدرتی وسائل کے ذخائر کو اس جنگ زده ملک کے درخشاں مستقبل کا اہم سہارا تصور کیا جاتا ہے۔ امریکی ارضیاتی جائزے کے مطابق نایاب زمینی دهاتوں سمیت افغانستان میں تیل و گیس، تانبے، لوہے، سونے، قیمتی پتهروں، لیتهیم اور یورینیم سمیت کئی دیگر دهاتوں کے وسیع ذخائر موجود ہیں، جن کی مالیت سرسری اندازوں کے مطابق بھی کئی ٹریلین ڈالر بنتی ہے۔
سیاسی ماہرین کے مطابق چین ہندوکُش کی ریاست افغانستان میں زیادہ سے زیادہ فعال کردار ادا کرنا چاہتا ہے اور وہاں کے ترقیاتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لے رہا ہے۔ اس کی ایک مثال بیجنگ حکومت کی طرف سے افغانستان کے بدامنی کے شکار سرحدی علاقے کنڑ میں ایک ہائیڈرو الیکٹرک پلانٹ کی تعمیر، سڑک اور پڑوسی ملک پاکستان کو ملانے والی ریلوے لائن کی تعمیر کے لیے غیر معینہ مالیاتی امداد کی یقین دہانی بھی ہے۔
ماہرین کی رائے میں چین افغانستان کے معدنی ذخائر سے اسی وقت فائدہ اٹھا سکتا ہے، جب وہاں سلامتی کے حالات بہتر ہوں گے۔ اسی طرح پاکستان بھی وسطی ایشیائی ریاستوں تک رسائی اور تجارت کا خواہش مند ہے۔ اسی طرح افغانستان میں امن پاکستان کے مالی مفادات کے لیے بھی ضروری ہے۔