تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری اب جب کہ افغانی طالبان نے ایک کھلے خط کے ذریعے امریکی عوام اور کانگریس کے ارکان کو مذاکرات کی دعوت دے دی ہے تو امریکیوں کو مذاکرات کرکے اپنی جان چھڑانے میں ہی بھلائی ہے اس سے نیٹو افواج کی بھی اشک شوئی ہوسکے گی کہ سبھی ممالک کی افواج عرصہ دراز سے افغانستان چھوڑنے کے لیے سامان باندھے بیٹھی ہیں اور مزید کسی ملک کی فوج افغانستان کے کارزار میں پہنچ کر مزید لڑائی کے لیے تیار نہ ہے امریکی بشمول دیگر ممالک کی افواج (نیٹو)افواج 17سال سے افغانستان کے پہاڑوں سے سر ٹکرا کر نڈھال ہو چکیں جب بھی امریکہ و دیگر اتحادی ملکوں میں لاشیں واپس پہنچتی ہیں تو ان ممالک میں قیامت بیت جاتی ہے اور ان ممالک کے عوام اس نہ ختم ہونے والی جنگ سے سخت نفرت کرتے ہیں۔
افغانستان کے اندر بیرونی افواج میں خود کشیوں کا رجحان بڑھ رہا ہے کہ انہیں رات کو خوابوں میں بھی اپنی ذلت آمیز موت نظر آتی ہے وہ زیر زمین بنکروں میں ایسے دفن رہ رہے ہیں کہ سورج کی روشنی تک بھی دیکھنے کے لیے ہفتوں تک میسر نہیں ہوتی۔ گویا وہ خود ساختہ قبروں میں بند رہ رہے ہیں افغانیوں کی سابقہ صدیوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ انہوں نے کسی حملہ آور کو آج تک قبضہ کرنے نہیں دیا جو بھی آیا اسے منہ کی کھانی پڑی اور ذلت آمیز شکستوں اور ہزاروں افراد کو جاں بحق کروا کر واپس جانا پڑا روس جیسی سپر طاقت کو بھی بالآخر وہاں سے بھاگ نکلنے میں ہی عافیت محسوس ہوئی روس تو افغانستان کا ہمسایہ ملک تھا وہ قابض نہ رہ سکے اور اپنے فوجیوں کی لاشیں سمیٹنے کے علاوہ انہیں کوئی کام نہ تھاانہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑاتو ہزاروں میل دور سے آکر امریکن وہاں کچھ بھی تو نہیں کرسکتے اپنا تھوکا کوئی خود چاٹنے کوتیار نہیں ہوتا اس لیے مسٹر ٹرمپ مودی کی شہ پر میں نہ مانوں کی ڈگڈگی بجاتے رہتے ہیں۔
پہلے تو پاکستان کی وساطت سے گلبدین حکمت یار وہاں وزیر اعظم نامزد ہو گئے تھے مگر وہاں موجود فرقوں قبیلوں کی نہ مٹنے والی لڑائیوں سے نظام درھم برھم ہو گیا تھا روس کی واپسی کے بعد امریکنوں نے مڑ کر بھی ادھر نہ دیکھا اور انہیں ان کے حال پر چھوڑ ڈالا تو نوجوان دینی اداروں کے طلباء طالبان کے روپ میں ابھرے اور بغیر کسی بڑے نقصان کے افغانستان پر قابض ہو گئے مختلف گروہی اور قبیلوں کی آپس کی جنگیں ختم ہوگئیں اور وہ اسلامی شریعت و قانون کے مطابق نظام قائم کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہو گئے غرضیکہ افغانستان اسلامی جمہوریہ بن گیا9/11کے بعد امریکہ غراتے ہوئے انتقامی جذبات سے پُر پورے افغانستان پر حملہ آور ہو گیا اور ملاں عمر نے غیرت ایمانی کے تقاضوں کے تحت امریکیوں کو مطلوبہ افراد حوالے کرنے سے انکار کردیا اور بیشترراہنمایان وہاں امن ہوجانے پر عرصہ قبل ہی دیگر ملکوں کو سدھار چکے تھے اب جبکہ کروڑوں اربوں ڈالرز خرچ کرکے بھی افغانیوں کو نیچا نہیں دکھایا جا سکا اور نیٹو کے نام سے مشترکہ افواج بھی تھک ہار کر شکست تسلیم کرچکی ہیں تو نئے کاروباری اور اسلام کے ساتھ بغض سے بھرے ہوئے دماغ رکھنے والے ٹرمپ کو اپنے پیشروکے اقدامات کی تائید کرتے ہوئے اپنی فوجوں کو نکال لینا چاہیے تھا مگر” نیا نوکر شیر مارے ” اور” مچھلی پتھر چاٹ کر ہی مڑتی ہے”کی طرح مزید افواج اتارنے کا فیصلہ کیا تاکہ یہاں قابض ہو کر قیمتی دھاتوں کو لوٹ کر اس سے ذاتی سرمایہ بنا سکیں مگر” ایں خیال است و محال است و جنوں ” کہ افغانی تو آپ کو شکست سے دوچار کرچکے ستر فیصد سے زائد علاقوں پر ان کا مکمل قبضہ ہے اور بقیہ تیس فیصد پر وہ حملہ آور ہوتے رہتے ہیں۔
حتیٰ کہ امریکنوں کی فوجی تنصیبات تک بھی ان کی دسترس سے باہر نہ ہوں تو جنگ و جدل میں شرمندگی اور لاشیں اکٹھی کرنے کے علاوہ بڑے سامراج کا آخر کیا کام باقی رہ جاتا ہے ؟ جنگوں کے دوران مذاکرات کے ذریعے جنگوں کے خاتمے کی روایات تاریخ کا حصہ ہیں کہ اسی طرح امن ممکن ہو سکتا ہے اتحادی افواج کے ذریعے افغانستان پر حملہ کرنے اس کی خود مختاری اور سا لمیت پر براہ راست حملہ تھا جس کا کوئی جواز نہ تھا امریکہ ادھر غاروں پہاڑوں کے ملک میں دو صدیاں بھی مزید ٹامک ٹوئیاں مارتا اور سر ٹکراتا رہے تو اس کی کامیابی ممکن ہی نہیں ہو سکتی کہ افغانوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ سبھی حملہ آوروں کو ہلاک کرکے صرف ایک فوجی کو زندہ چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ واپس جا کر حملہ آور ملک کے لوگوں کو رو رو کر اپنی داستان ستم سنائے کہ ہم پر کیا بیتی اور کیسے سبھی فراد افغانیوں نے ہلاک کر ڈالے ویسے بھی جمعیت اسلامی کے سربراہ حکمت یار کو واپسی کی اجازت دے ڈالی گئی ہے تو طالبان سے مذاکرات میں کیا امر مانع ہے ؟دوسری طرف پاکستان سے بھی مزید چھیڑ چھاڑ بند ہو جانی چاہیے کہ بالآخر اس کا اتحادی ہونے کے ناطے پاکستان ہی بیرونی افواج کو وہاں سے بہ حفاظت نکال ڈالنے میں ممد و معاون ہو سکتا ہے ٹرمپ اور مودی کی شہ پر موجودہ پیرس میں منعقد کیے جانے والی میٹنگ میں پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرنے کی شرمناک کوششیں بند ہونی چاہئیں کہ اپنے ہی دہشت گردی کے خلاف اتحادی پاکستان جس نے60ہزار سے زائد جانی قربانیاں دیں اسے اس طرح رگیدنا محیر العقول اور اچنبھا عمل ہو گا۔