تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم افسوس کی بات ہے کہ پچھلے دِنوں اسلام آباد میں تھانہ کوہسارکے علاقے میں ایک بار پھر امریکی سفارتی عملے کے ہاتھوں پاکستانی شہری کے مارے جانے اور دو کے زخمی ہونے کا المناک واقعہ رونما ہواہے جس کے بعد ہمارے حکمرانواور سیاستدانوں نے قاتل امریکی اتاشی کو بچا نے کے لئے اپنی کوششیں تیز کردی ہیں اور صدر اور وزیراعظم سمیت ایوان نمائندگان سب ہی امریکی اتاشی کو بچا نے کے لئے متحرک ہوگئے ہیں خبر کے مطابق امریکی سفارت خانے کے نشے میں دھت ملٹری اتاشی کی گاڑی کی ٹکرسے ایک نوجوان جاں بحق اور دوزخمی ہوگئے ہیں حادثے کے وقت امریکی ڈیفنس ائر اتاشی گاڑی خود چلا رہا تھا۔
اَب اِس پر ہماری پولیس کاموقف یہ ہے کہ سفارتی استثنیٰ کے باعث ملٹری اتاشی کو گرفتار نہیں کیا گیااور نہ ہی گرفتار کیا جاسکتا ہے گو یا کہ یہ ہی وہ استثنیٰ ہے جس کی بنا پر امریکی پاکستانیوں کو کیڑے مکوڑے سمجھ کر مارتے ہیں اور بچ نکلتے ہیں اَب قوم کو کوئی یہ بتائے کہ ایسا کونسا استثنیٰ ہے ؟جس کی بنیاد پر امریکی پاکستانیوں کو مارتے ہیں اور بچ نکلتے ہیں کبھی امریکی ہمیں قرض اور امداد دینے کے عوض ڈرون سے مارتے ہیں تو کبھی اپنا استثنیٰ استعمال کرتے ہوئے خود بھی مارتے ہیں تو کسی اور سے مروادیتے ہیں) یہ کو ئی نیا واقعہ نہیںہے اِس سے قبل بھی امریکی سفارتی عملے کے ڈوک نما اہلکار جب اور جہاں چاہتے رہے ہیں اپنی کمین گاہوں سے نکلتے اور پاکستا نیوں کاشکار کرتے اِنہیں مار تے اور بچ نکلتے رہے ہیں آج بھی ہمارے حکمرانو، سیاستدانوں اور قومی اداروں کی ہمدردی ہلاک و زخمی ہونے والے پاکستانیوں کے بجائے قاتل امریکی اتاشی کے ساتھ ہے یہ بڑے دُکھ اور افسوس کی بات ہے آج بھی ماضی کی طرح ایسا لگتاہے کہ عنقریب پھرہمارے حکمران، سیاستدان اور قومی انصاف و سیکیورٹی کے ادارے قاتل امریکی اتاشی کوشک کا فائدہ دے کر بچا نے کے لئے ایک پیچ پر جمع ہوں گے اورحسب روایت پھر پاکستا نی مرحوم نوجوان کے لواحقین سے قصاص و دیت کے لئے رابطہ کیا جا ئے گا اور پھرمرحوم نوجوان کے لواحقین سے یہ کہاجائے گا” صبر کریں اللہ کو یہی منظور تھاآپ کا مرحوم تو جنتی ہے مگر جنت میں بلند درجات تب ہی پائے گا جب آپ امریکی اتاشی کی غلطی معاف کردیں گے اور مرحوم کی جان کے بدلے میں قصاص ودیت کی یہ رقم(جو پاکستانی حکومت نے اپنے کھاتے سے اداکرنی ہے ارے اِس میں اتنی بھی ہمت نہیں ہے کہ یہ قصاص کی رقم ہی کا امریکا سے مطالبہ بھی کرسکے) وصول کرلیں گے توہماری سمیت سب کی جان بھی چھوٹ جا ئے گی اور آپ کا مرحوم تُرنت جنت میں داخل ہوجائے گا“۔
اَب اِس پر لازم ہے کہ قوم کو اپنا وقاراور اپنی خودمختاری اور سا لمیت اپنے امریکی پٹھو حکمرانو، سیاستدانوں اور قومی اداروں سے بحال کرانے کے لئے اپنے روشن اور تابناک مستقبل کی گھڑی کی اُس سیکنڈوں والی سوئی کو ضرور لگانا ہوگا جو ہمارے حکمرانو، سیاستدانوں اور قومی اداروں نے دانستہ غائب کردی ہے تاکہ قوم کو اِس کے روشن اور تابناک مستقبل اور بنیادی حقوق سے محروم رکھا جائے اور وقت کی گھڑی کو اپنی اور امریکیوں کی مرضی سے چلایااور روکاجائے مگر قوم کو اِس کے روشن مسقتبل کی ایک سیکنڈ کی بھی جھلک نہ دکھا ئی جائے اور نہ ہی بنیادی حقوق تھال میں سجا کردے دیئے جا ئیں اگر ایسا کردیا تو پھر ؟؟۔
اگر دیکھا جا ئے تو آج دنیا کی ترقی یافتہ اور خوشحال اقوام کو بھی ترقی اور خوشحالی کڑی آزمائشوں اور امتحانوں سے گزرنے کے بعدہی ملی ہیں قوم خاطر جمع رکھے اِس کے بھی بہت جلد اچھے دن آنے والے ہیں مگر بس صرف یہ اپنے اندر ذراسی ہمت پیدا کرلے اور جابرفاسق و فاجر چور لٹیرے آف شور کمپنیوں اور سوئس بینکوں میں قومی خزانے سے بورے بھر بھرکر اربوں کھربوں روپے اپنے ذاتی کھاتوں میں جمع کرانے اور امریکی پٹھو بن کرساری پاکستانی قوم کو امریکاکے سا منے کیڑے مکوڑے بنا کر بے دردی سے مارنے کے لئے پیش کرنے والے حکمرانواور سیاستدانوں کا اگلے متوقعہ انتخابات سے قبل احتساب کرنے والے قومی اداروں پراپنا اعتماد بحال رکھے تو یقیناپاکستا نی قوم کو بہت جلد اپنے اچھے دن آنے کی دائمی خوشخبری سُننے کو ملے گی پھر قوم کو اپنے اِس سوال کا جواب خود ہی مل جائے گا کہ آخر کب آزمائشیں اور پریشانیاں ختم ہوں گیں؟ بس ذراسا انتظار قوم اور کرلے بہت جلد سب کچھ ٹھیک ہوجا ئے گا۔
تاہم آج کل پاکستا نی قوم بھی امتحانوں اور کڑی آزمائشوں سے گزررہی ہے اَب دیکھنا یہ ہے کہ آج دنیا کی جن اقوام کو ترقی اور خوشحالی نصیب ہوئیں ہیںاِنہوں نے دوران آزمائش اپنے مستقبل کے اچھے دِنوں کے لئے کیسی صف بندی اور منصوبہ بندیاں کی تھی؟کہ آج یہ اقوام رہتی دنیا تک دوسری قوموں کے لئے مشعلِ راہ بن گئیں ہیںاگر ہمیں بھی اپناکل تابناک اور روشن کرنا ہے تو پھر ہمیں جاگنا ضرور پڑے گا اور جلد از جلد اِن مسائل و مشکلات اور بحرانوں کی شکل میں آنے والی آزمائشوں ، امتحانوں اورپریشانیوں سے جھٹکارے کے لئے ایسی ہی صف بندی اور منصوبہ بندیاں کرنی ہوں گیں کہ جیسے اِن اقوام نے اپنے آزمانشوں اور امتحانوںسے نبرد آزما ہونے کے لئے کیں تھیں اگرابھی ہم نے بحیثیت پاکستانی قوم اپنے مستقبل کو بہتر بنا نے کے خاطرمایوسیوں اور پستی و گمنامی کے موجودہ دلدل سے خود کو نکالنے کے لئے دیرپااور پائیدار حکمتِ عملی نہیں اپنا ئی تو پھر پستی اور گمنامی اور ناکامی اور نامرادی ہمارا مقدر ہی رہیں گیں اورہم دنیا کے قرضوں، امدادوں اور بھیک پر پلنے والی قوم کے سِوا اپنی کو ئی حیثیت کبھی نہیںبنا سکی گی۔
بہرحال،اِس میں کو ئی دو را ئے نہیں ہے کہ اپنے سیاسی ، ذاتی اور اقتداری مقاصد کے لئے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ بلند کرنے والے ہمارے حکمرانواور سیاستدانوں اور قومی اداروں نے امریکی پٹھو بن کر ساری پاکستا نی قوم کو امریکا کے سا منے کیڑے مکوڑے کی حیثیت سے پیش کردیاہے جب امریکا چاہتاہے پاکستا نیوں کو اپنی مرضی سے مارتارہتاہے اور ہمارے حکمران سیاستدان اور قومی ادارے ” اَبکی مارکے دیکھ“ کہتے ہوئے چیخ چلا کر خاموش ہوجا تے ہیں ہماری ایسی خود مختاری اور سا لمیت کی توایسی کی تیسی اور دہت تیرے کی۔(ختم شُد)