عالمی سطح پر مختلف خطوں میں طاقت کا توازن بگاڑنے میں واشنگٹن نے کلیدی کردار ادا کیا ہےلیکن اس سے بھی کوئی انکاری نہیں ہے کہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے اتحادیوں کی مدد سے شطرنج کی جو بساط بچھا ئی گئی تھی اس میںوہ آج خود بری طرح پھنس چکا ہے۔کئی دہائیوں سے مغربی ممالک نے نت نئے حربے استعمال کر کے ایشیائی اور افریقی ممالک کے عوام کا استحصال جاری رکھا ہوا تھا لیکن نائن الیون کے بعد دہشت گردی کیخلاف جو نام نہاد جنگ شروع کی گئی اس نے دیکھتے ہی دیکھتے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
کیاامریکہ اب جوبائیڈن کی قیادت میں جنگ عظیم دوئم کے بعد کے سب سے بڑے معاشی بحران سے نکل پائے گا؟کیاامریکی صدرنے جن نئی اقتصادی پالیسیوں کا وعدہ کیا تھا اس سے تمام امریکی مستفید ہو سکیں گے؟،کیا جن معاشی منصوبوں کی نشاندہی کی گئی تھی ان کی تکمیل سے امریکی معیشت دنیا کی دیگر بڑی طاقتوں کا مقابلہ کر پائے گی؟بہرحال یہ تو آنے والاوقت ہی بتائے گا لیکن موجودہ نازک حالات میں یورپی ممالک جنہیں امریکہ نے روس کے خوف سے یرغمال بنایاہواتھا وہ اس کے سحر سے نکل رہے ہیںاسی بدتر صورتحال نے ایک طاقت کا خلا ء پیدا کیا ہے جسے روس اور چین پہلے ہی پر کر رہے ہیں۔افغانستان سے انخلاء کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کو دیکھتے ہوئے جہاں امریکی انتظامیہ کی خارجہ پالیسی اور بالخصوص کابل سے متعلق حکمت عملی پر کئی سوالات اٹھ رہے ہیں وہیں ہر ملک اپنے تئیں بنائی پالیسیوں پر عمل پیرا ہونے کیلئے تگ دو میں مصروف ہے جس سے علاقے میں نت نئے بحرانوں نے سر اٹھا لیا ہے اور اب معاملات کنٹرول سے باہر ہو چکے ہیں۔
اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ خطے کا کوئی بھی ملک امریکی ڈیمانڈ کو نہیں جان سکا اور نہ ہی یہ معلوم ہے کہ بدلے میں اسے کیا دیا جا رہاہے؟ ۔ پاکستان ہمیشہ امریکی اتحادی ہونے کا دعویدار رہا مگردفاع اور ترقی کیلئے جب بھی تعاون کی ضرورت پڑی اس نے طوطا چشمی کا ہی مظاہرہ کیا۔اس میں کوئی شک و شبے کی گنجائش نہیں ہے کہ ماضی میں ہماری قومی خارجہ پالیسی کی سمت کبھی درست نہیں رہی۔ سوویت یونین کے باضابطہ دورے کی دعوت کو ٹھکرا کر واشنگٹن سے ہاتھ ملایاگیا حالانکہ سپرپاور ہونے کے زعم میں مبتلا امریکہ نے کبھی بھی ہمارے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات استوار نہیں کئے نہ ہی کبھی اس کی آزادی اور خودمختاری کی پاسداری کی جو عالمی برادری میں ایک دوسرے کے ساتھ باہمی تعلقات کا بنیادی اصول ہوتا ہے۔
یاد رہے کہ خطے میں اس کی پسپائی ایک گریٹر منصوبے کا ہی حصہ ہے کیونکہ قبل ازیں بھی اس نے مشرق وسطیٰ میں ایسا ہی کیا تھا۔ سابق صدر اوباما نے بھی شدید تنقید کے باوجود شام کا میدان روس کے لئے چھوڑ دیا تھا جس پر شامی اپوزیشن عرب ممالک اور ترکی بھی حیران تھے بالکل ویسے ہی افغانستان میں بدتر حالات پیدا کر کے چین اور روس کو اس میں الجھانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے تاکہ ”ون بیلٹ ون روڈ”منصوبے کو ناکام بنا یا جا سکے بھارت بھی اس میں جلتی پر تیل ڈالنے کا بھرپور کردار ادا کر رہا ہے۔
امریکہ نے ایک طرف ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کے جرم میں عالمی اقتصادی پابندیاں لگوانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جبکہ دوسری طرف تمام ممالک کو این پی ٹی اور سی ٹی بی ٹی کی شکل میں ایٹمی عدم پھیلائو کے معاہدوں کے ساتھ باندھ کر خود کبھی اس کی پاسداری نہیںکی۔واشنگٹن کا اپنے اتحادیوں کو چین اور روس کیخلاف نیا محاذکھول کراٹیمی ٹیکنالوجی سے لیس کرنے کیلئے نت نئے معاہدے کرنا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت سیاسی، معاشی اور اسٹریٹجک عدم استحکام کا جونیا دور شروع کیا جارہا ہے شاید ہی کوئی ملک اس کے شدید منفی اثرات سے خود کو محفوظ رکھ پائے۔
بھارت نے گزشتہ 2دہائیوں سے خطے میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کیلئے امریکی آشیر باد پردہشت گردی اور تخریب کاری کو ہی پروان نہیں چڑھایا بلکہ طالبان اور افغان فورسز کے درمیان جھڑپوں میں اس نے ہمیشہ ڈبل گیم کھیلنے کا ڈ رامہ رچایا ، ایک طرف طالبان سے مذاکرات جبکہ دوسری جانب ان کیخلاف سابق غنی انتظامیہ کو اسلحہ کی فراہمی کے اس کے مذموم مقاصد کا پرچہ چاک کرتی ہے لہٰذااب بھی ” امن عمل ”میں رکاوٹیں ڈالنے کی سازشوں میں اگر کوئی ملک ملوث ہو سکتا ہے تو وہ صرف مودی ہی ہے جو اپنے توسیع پسندانہ مقاصد ناکام ہوتے دیکھ کر سخت اضطراب کا شکار ہے۔بی جے پی سرکار کو پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک کی سلامتی اور ترقی و خوشحالی ایک آنکھ بھی نہیں بھاتی لہٰذا ”را”،”این ڈی ایس ”اور دیگر ملک دشمن ایجنسیوںکے ذریعے امن کو تباہ و برباد کرنے کا کوئی کوئی موقع ہاتھ نہیں جانے دیا جا رہا۔
ایل او سی پر بھارتی افواج کی جارحیت ،بلوچستان اور فاٹا میں دہشت گردی کے بڑھتے واقعات کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ پاکستان کو کشمیریوں کی استصواب رائے کے بنیادی حق کی حمایت سے دستبردار کراکر سی پیک منصوبے کو روکا جائے ۔واشنگٹن کی مذموم مقاصد اور مفادات کے حصول کیلئے توسیع پسندانہ اور جنگجویانہ پالیسیاں معیشت کے لئے زہر قاتل ثابت ہوئی ہیں کیونکہ دہشت گردی کیخلاف نام نہاد جنگ نے پوری دنیا کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کر دیا ہے۔افغانستان کے ابتر حالات کو دیکھتے ہوئے پاکستان امداد پہنچانے کیلئے زمینی اور فضائی پل کے طور پر کام کررہا ہے لیکن مسلسل2دہائیوں کے جنگ زدہ ملک کے سنگین حالات، عوام کی بھوک و افلاس اورنئے جنم لینے والے انسانی ومعاشی بحران کو مدنظر رکھتے ہوئے اقوام عالم بالخصوص امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کو منجمند اثاثوں کی بحالی یقینی بنانا ہو گی ۔طالبان کا غلبہ ہونے کے بعد خطے کی تبدیل ہوتی صورتحال کے تناظر میں چین، روس، ایران، ترکی اور دیگر ممالک کی نگاہیں پاکستان پر مرکوز ہیں جو افغانستان میں امن کی بحالی کے حوالے سے اس کے کردار کو سراہتے ہوئے ہر ممکن تعاون پر آمادہ ہیں۔