دمشق (جیوڈیسک) ڈاکٹر انس کے بقول کیسگ کبھی بھی دنیا دار شخص نہیں تھے کیونکہ وہ کھل کے بات کرتے تھے، دیانت دار تھے، قدرے جذباتی تھے، عام لوگوں کی مدد کر کے خوش ہوتے اور بہت جلد ہی مزاحمت کاروں کے بہکاوے میں آ جاتے تھے۔ اسی لیے بعد میں جب میں نے اس کے والدین کو یہ کہتے سنا کہ ان کا بیٹا اس دنیا میں اپنے مقام کی تلاش میں تھا تو سچ پوچھیں مجھے کچھ زیادہ حیرت نہیں ہوئی۔
لگتا ہے پیٹر کیسگ کو جس چیز کی تلاش تھی وہ انھیں مل گئی اور انھوں نے شام سے تعلق رکھنے والے طبی اہلکاروں کو تربیت دینا شروع کر دی۔ ان کی تربیت کی بدولت شاید کئی لوگ موت کے منہ میں جانے سے بچ گئے۔ ان کا کام آسان نہیں تھا بلکہ وہ ہر وقت گولیوں، بموں، فضائی حملوں اور اغوا کیے جانے کے خطرات میں گھرے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر انس کے بقول جب وہ آخری مرتبہ کیسگ سے ملے تو انھوں نے پوچھا،پیٹر تمھیں مرنے سے ڈر نہیں لگتا ، تو اس کا جواب تھا کہ تم سب کی زندگیوں کے مقابلے میں میری زندگی کی کوئی قیمت نہیں۔
معمول یہی تھا کہ ہم 24 گھنٹے کھانے کا ہی انتظار کرتے رہتے تھے کیونکہ ہمیں کبھی بھی کافی کھانا نہیں دیا جاتا تھا۔ جہاں تک عبدالرحمان کا تعلق ہے ، تو وہ اپنا تمام کھانا دوسرے مغویوں کو دے دیتا تھا اور خود میٹھی چیزوں کی تلاش میں لگا رہتا تھا۔ وہ ہر وقت اسی چکر میں ہوتا تھا کہ کہیں سے اسے مارملیڈ مل جائے۔ عبدالرحمان واحد مغربی مغوی نہیں تھا جس نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ ہمارے گروپ میں چند اور لوگ بھی تھے جو مسلمان ہو چکے تھے۔
یہ لوگ پانچ وقت کے نمازی تھے، بلکہ بسا اوقات یہ لوگ دو اضافی نمازیں بھی پڑھتے تھے۔ یہ لوگ پیر اور جمعرات کو روزہ بھی رکھتے جو کہ فرض نہیں بلکہ اضافی ہے، جیسے، پکے مسلمان۔ میں نے نکولس سے پوچھا کہ انھوں نے وہ ویڈیو دیکھی ہے جس میں برطانوی مغوی ایلن ہیننگ کو قتل کرتے دکھایا گیا اور عبدالرحمان کیسگ کو بھی قتل کیے جانے کی دھمکی دی جا رہی ہے۔
ایک بہت طویل خاموشی کے بعد نکولس کا کہنا تھا کہ انھوں نے وہ تمام ویڈیوز دیکھی ہیں۔ پیٹر کیسگ کے والدین کو امید ہے کہ ان کا بیٹا زندہ واپس آجائے گا۔