اسرائیل (جیوڈیسک) امریکہ نے اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے میں نئی یہودی آبادکاری کی تعمیر کی اجازت دیے جانے پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس قدم کی وجہ سے اسرائیل اور فلسطین مسئلے کے دو ریاستی حل کے امکانات کم ہوتے جا رہے ہیں۔
وائٹ ہاؤس اور وزارت خارجہ نے مغربی کنارے کے علاقے میں 300 نئے مکانات اور صنعتی علاقے کے منصوبے کی منظوری پر تنقید کی ہے۔ تاہم اسرائیلی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ نئی یہودی آبادکاری اور صنعتی علاقہ پہلے ہی سے قائم یہودی آبادکاریوں کے علاقے میں قائم کی جائے گی۔
اسرائیل کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس نئے منصوبے کے تحت صرف 100 مکانات تعمیر کیے جائیں گے۔ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم پر 1967 میں قبضہ کرنے کے بعد سے پانچ لاکھ 70 ہزار اسرائیلی100 یہودی آبادکاریوں میں رہتے ہیں۔
بین الاقوامی قوانین کے تحت یہ بستیاں غیر قانونی ہیں تاہم اسرائیل اس سے متقفق نہیں۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان جوش ارنسٹ نے کہا ‘اسرائیلی حکومت کی جانب سے ان یہودی آبادکاریوں کی تعمیر کے اعلان سے امن کی کوششوں کو نقصان پہنچا ہے۔‘
دوسری جانب امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر نے کہا ہے کہ نئی بستی کی تعمیر اس علاقے پر قبضے کو مزید مستحکم کرے گی اور امن کے لیے اسرائیلی سنجیدگی پر سوال اٹھیں گے۔
مارک ٹونر نے کہا کہ یہ بہت پریشان کن بات ہے کہ اسرائیل نے اس نئی بستی کا اعلان ایسے وقت کیا جب امریکہ نے گذشتہ ہفتے ہی اسرائیل کو 3.8 ارب ڈالر کی دس سالہ فوجی امداد دینے کا اعلان کیا۔
امریکہ اور اسرائیل میں ہونے والے اس معاہدے کے تحت اسرائیل کے میزائل پروگرام کے لیے بھی رقم فراہم کی جائے گی۔
خیال رہے کہ معاہدے کے تحت جو امداد اسرائیل کو فراہم کی جائے گی وہ اب تک امریکہ کی جانب سے کسی بھی ملک کو دی جانے والی دفاعی امداد سے زیادہ ہے۔
امریکی اور اسرائیلی حکام کے بقول اس سلسلے میں اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے کچھ اہم شرائط پر سمجھوتا کیا ہے۔
ان شرائط کے مطابق اسرائیل کانگریس سے مزید رقم کا مطالبہ نہیں کرے گا اور اس کے علاوہ مرحلہ وار اس معاہدے کو بھی ختم کر دیا جائے گا جس کے تحت اسرائیل امریکہ سے ملنے والی دفاعی امداد کی رقم سے امریکی کمپنیوں کے بجائے اسرائیلی کمپنیوں سے اسلحہ خرید سکتا تھا۔
ذرائع کے مطابق اس معاہدے کے سلسلے میں ہونے والے طویل مذکرات سے صدر اوباما اور اسرائیلی وزیرِاعظم نتن یاہو کے مابین پائی جانے والی تلخی ظاہر ہوتی ہے۔