’امریکی ملیشیا کیپیٹل ہل کو اڑا دینے کا ارادہ رکھتی ہے‘

Security

Security

واشنگٹن (اصل میڈیا ڈیسک) کیپیٹل ہل کی سکیورٹی کی سربراہ کے مطابق چونکہ انتہا پسندوں کی جانب سے اب بھی خطرہ لاحق ہے اس لیے موجودہ سکیورٹی کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔
واشنگٹن میں کیپیٹل ہل کی سکیورٹی کی ذمہ دار پولیس کے نائب سربراہ کا کہنا ہے کہ چونکہ دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی جانب سے اب بھی اس کو خطرات لاحق ہیں اس لیے سکیورٹی کے جو اضافی اقدامات کیے گئے تھے انہیں ابھی برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔

کارگزار پولیس سربراہ یوگاننڈا پیٹ مین نے جمعرات 25 فروری کو گزشتہ چھ جنوری کو صدر ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے کیپیٹل ہل پر ہونے والے حملے کے بارے میں کانگریس کمیٹی کے سامنے ہونے والی ایک سماعت کے دوران یہ باتیں کہیں۔

اس حملے میں ایک پولیس اہلکار سمیت پانچ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ امریکا میں کیپیٹل ہل کی عمارت ہی کانگریس کے ارکان کی میٹنگ کا مقام ہے اور وفاقی حکومت کے ایوان نمائندگان کا اجلاس بھی اسی میں ہوتا ہے۔

پیٹ مین نے ‘ہاؤس ایپروپری ایشن کمیٹی’ کے ممبروں کے کو بتایا، ”جس ملیشیا گروپ کے ارکان چھ جنوری کو وہاں موجود تھے، انہوں نے کیپیٹل ہل کو اڑا دینے کی اپنی خواہشات کا اظہار کیا ہے، وہ ‘اسٹیٹ آف دی یونین’ کے ساتھ براہ راست گٹھ جوڑ کر کے زیادہ سے زیادہ ارکان کو ہلاک کرنے کا بھی ارادہ رکھتے تھے۔”

ان کا مزید کہنا تھا، ”ہم سوچتے ہیں کہ احتیاطی طور پر بہتر یہی ہوگا کہ جب تک ہم آگے آنے والے خطرات کو اچھی طرح سے دور نہ کرلیں اس وقت تک کیپیٹل ہل کی پولیس اپنی موجودہ بہترین اور مضبوط سکیورٹی پوزیشن کو برقرار رکھے۔”

آسٹریا کے نائب چانسلر ہائنز کرسٹیان سٹراخا کئی مرتبہ یورپی یونین پر زور دے چکے ہیں کہ روس پر عائد پابندیاں ختم کی جائیں۔ عوامیت پسند پارٹی FPÖ کے رہنما سٹراخا مشرقی یورپ میں نیٹو کے آپریشنز میں وسعت کے بھی خلاف ہیں۔ 2005ء میں انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ’ حالیہ عشروں میں روس نے جارحیت نہیں دکھائی‘۔ ممکنہ روسی عسکری کارروائی کے پیش نظر نیٹو نے روس کے ساتھ متصل یورپی سرحدوں پر اپنی موجودگی بڑھائی ہے۔

چھ جنوری کو حملے کے بعد سے ہی کیپیٹل ہل کے آس پاس غیر مثالی سکیورٹی بندوبست نافذ ہیں۔ اس کے تحت خار دار تاروں کی باڑ کے ساتھ ساتھ بہت سے مقامات پر چہار دیواری کو کافی اونچا کر دیا گیا ہے اور مختلف مقامات پر چیک پوائنٹس پر نیشنل گارڈز کو تعینات کیا گیا ہے۔

امکان ہے کہ وسط مارچ تک اس کی حفاظت پر تقریبا ًپانچ ہزار فوجی تعینات رہیں گے۔ ابھی تک صدر بائیڈن کے اسٹیٹ آف یونین کے خطاب کی تاریخ کا بھی اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ عام طور یہ تقریب سال کے آغاز میں ہوتی آئی ہے۔

پیٹ مین نے کمیٹی کے سامنے کہا، ”ہمیں معلوم ہے کہ کیپیٹل ہل پر دھاوا بولنے والے بغاوت پسند افراد کی دلچسپی صرف کانگریس کے ارکان اور افسران پر حملہ کرنے کی نہیں تھی۔ بلکہ ان کا مقصد قوم کو یہ علامتی پیغام بھی دینا تھا کہ قانونی سازی کے عمل پر کس کا کنٹرول ہے۔”

اس حملے کے سلسلے میں اب تک 200 سے زائد افراد کے خلاف کیس درج کیا جا چکا ہے۔ ان میں سے بیشتر کا تعلق ‘اوتھ کیپروس’ اور ‘پراؤڈ بوائز’ نامی دائیں بازوں کے انتہا پسند گروپوں سے ہے۔