تحریر: مرزا روحیل بیگ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان کے پر الزامات نے ایک طوفان برپا کر رکھا ہے۔ جہاں امریکی صدر کے بیانات پاکستان کے حق میں نہیں وہیں ان کے بیانات زمینی حقائق کی بھی نفی کرتے ہیں۔ صدر ٹرمپ کا جھکاؤ اس وقت بھارت کی جانب ہے۔ اور وہ پاکستان کی قیمت پر بھارت کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ جو کہ سرا سر غلط ہے۔ اس میں دورائے نہیں کہ بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے۔ قیام پاکستان سے لیکر اب تک بھارت پاکستان کے ہمسایہ ممالک میں اینٹی پاکستان قوتوں کو سپورٹ کرتا آیا ہے۔ خاص طور پر بھارت نے افغانستان میں اینٹی پاکستان قوتوں کی بہت مدد کی ہے۔ بھارت اسی طرح امریکا کو بھی اینٹی پاکستان بنانا چاہتا ہے۔ پاک امریکا تعلقات کا پس منظر سمجھنا بہت ضروری ہے۔ جہاں امریکی صدر نے بے دھڑک پاکستان پر الزامات کی بارش کی ہے۔ اچھا ہوتا امریکی صدر اپنی غلطیاں بھی تسلیم کر لیتے۔ قیام پاکستان سے لیکر 1965 تک پاکستان امریکا کا اتحادی رہا۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ کے بعد امریکا نے پاکستا ن پر پابندیاں عائد کر دیں۔ اور پاکستان کی فوجی امداد بند کر دی۔ ان حالات میں پاکستان نے چائنہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو وسعت دی۔
امریکا کو اس بات کو تسلیم کرنا چاہیئے کہ چائنہ کی طرف پاکستان کے جھکاؤ پر خود امریکا نے پاکستان کو مجبور کیا۔ 1979 میں روسی افواج افغانستان میں داخل ہو گیئں۔ امریکہ کے لیئے روس کی افغانستان میں مداخلت ناقابل قبول تھی۔ پاکستان اس جنگ میں امریکہ کا حمایتی بن گیا۔ پاکستان کا مفاد بھی امریکی حمایت سے وابستہ تھا۔ کیونکہ پاکستان کو دونوں اطراف سے خطرہ تھا۔ ایسٹ سے ہندوستان اور ویسٹ سے روس و افغان فورسز۔ روس افغان جنگ کے دوران 20, 25 ہزار مجاہدین کو روس کے خلاف لڑنے کے لیئے مسلح کیا گیا۔ یہ سب امریکی مرضی اور آشیرباد سے ہوا۔ امریکا کو اپنی اس غلطی کو بھی تسلیم کرنا چاہیئے۔ دس سال اس جنگ میں پاکستان امریکہ کا اتحادی رہا۔ اور روس کو شکست فاش ہوئی۔ 1989ـ90 میں امریکا نے پھر پریسلر ترمیم کے ذریعے پاکستان پر پابندیاں عائد کر دیں۔ سوویت یونین کو شکست دینے میں پاکستان نے سب سے زیادہ امریکا کی مدد کی۔ مگر پاکستان کو صلہ پھر پابندیوں کی صورت میں ملا۔ روس کو شکست دینے کے بعد امریکا افغانستان کو بے یارو مددگار چھوڑ کر چلا گیا۔ 1990 سے 2000 کے دوران افغانستان میں القاعدہ اور طالبان نے جنم لیا۔ اس دوران 40 لاکھ مہاجرین پاکستان داخل ہوئے۔ اگر جنگ کے بعد امریکہ افغانستان کی تعمیر نو میں مدد کرتا تو مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد پاکستان داخل نہ ہوتی۔ نائن الیون کے سانحے کا الزام امریکا نے ان لوگوں پر لگایا جو روس افغان جنگ کے دوران امریکہ کے آلہ کار تھے۔ امریکہ کو ان حقائق اور اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا چاہیئے۔ موجودہ صورتحال میں امریکا سے مؤثر ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔
ان کی جائز شکایات کو سنا جانا چاہیئے۔ اور پاکستان کو بھی اپنے تحفظات سے آگاہ کرنا چاہیئے۔ پاکستان کو انڈیا کے حوالے سے اپنے تحفظات امریکا کے سامنے رکھنے چاہیئں کہ کیسے انڈیا پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ فضل اللہ اور براہمداغ بگٹی جیسے بیرونی آلہ کاروں کو بھی بے نقاب کرنا چاہیئے۔ کہ پاکستان سے باہر بیٹھ کر وہ معصوم لوگوں کی جانوں سے کھیل رہے ہیں۔ امریکا افغانستان میں ہندوستان کو اہم کردار دینا چاہتا ہے۔ اس حوال سے امریکا سے بات ہونی چاہیئے۔ افغانستان پاکستان کا ہمسایہ ملک ہے۔ دونوں کے مفادات ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔ افغانستان میں پاکستان کا کردار اہم ہونا چاہیئے۔ موجودہ صورتحال میں ڈائیلاگ ہی واحد راستہ ہے۔ جس سے امریکا کے ساتھ تعلقات معمول پر واپس آ سکتے ہیں۔ امریکا کے ساتھ پاکستان کے اچھے تعلقات ہونے چاہیئں۔ مگر تعلقات باہمی عزت و احترام پر مبنی ہونے چاہیئے۔