فلپائن (اصل میڈیا ڈیسک) یہ بات دنیا کے سب سے زیادہ کیتھولک ملک فلپائن کے ایک گاؤں تالُستوسان کی ہے، جہاں ایک امریکی پادری نے ایک بارہ سالہ لڑکے پر جنسی حملے کے بعد کہا تھا، ’’یہ ایک قدرتی بات ہے، جوان ہونے کے عمل ہی کا ایک حصہ۔‘‘
پھر 2018ء میں اسی پادری نے اس لڑکے کو، جو تب ایک جوان آدمی تھا، ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا، ”اچھے دن تو گزر گئے ہیں، سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔‘‘ یہ فون کال اس متاثرہ آدمی نے ریکارڈ کر لی تھی، اور اب اس کی طرف سے لگائے جانے والے الزامات فلپائن کے ایک جزیرے پر واقع اس چھوٹے سے گاؤں میں ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں ہنگامہ کھڑا کر چکے ہیں۔
اس فلپائنی شہری کی طرف سے کیتھولک چرچ کے اس نمائندے کی طرف سے اپنے ساتھ جنسی زیادتی کے یہی الزامات اس بات سے پردہ اٹھانے کے لیے بھی کافی ہیں کہ کلیسائی شخصیات کس کس طرح کے جنسی جرائم میں ملوث ہوتی ہیں اور ان کے ایسے مجرمانہ اعمال کی کیسے کیسے پردہ پوشی کی جاتی ہے، کبھی کبھی تو عشروں تک کے لیے۔
فلپائن کے اس شہری نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ جب وہ بارہ سال کا ایک کم عمر لڑکا تھا، تو مقامی کلیسا کا پیُوس ہینڈرکس نامی امریکی پادری اسے چرچ کی عمارت سے ملحقہ ایک رہائش گاہ کے غسل خانے میں لے گیا تھا، جہاں وہ اس لڑکے پر جنسی حملے کا مرتکب ہوا تھا۔ اپنے اس جرم کے بعد اس پادری نے اس لڑکے سے کہا تھا، ”یہ ایک قدرتی بات ہے، جوان ہونے کے عمل ہی کا ایک حصہ۔‘‘
پھر یہ کیتھولک پادری اس لڑکے کے ساتھ کئی برسوں تک جنسی زیادتی کا مرتکب ہوتا رہا تھا لیکن متاثرہ لڑکا کبھی بھی کسی کو کچھ بتا نہ سکا تھا۔ تب ایک دن گاؤں کے ایک رہائشی نے یہ سوال اٹھا ہی دیا کہ متعلقہ پادری مقامی لڑکوں پر اتنا مہربان کیوں رہتا تھا؟
تب اس متاثرہ نوجوان نے سوچا کہ جو کچھ اس کے ساتھ برسوں تک ہوتا رہا ہے، کل وہی کچھ اس کے بھائی کے ساتھ بھی ہو گا۔ یہ سوچ کو وہ گزشتہ برس نومبر میں پولیس کے پاس گیا اور سب کچھ بتا دیا۔
اس کے بعد اس وقت 78 سالہ پادری ہینڈرکس کو گرفتار کر لیا گیا اور اس پر بچوں سے جنسی زیادتی کی فرد جرم بھی عائد کر دی گئی۔ تب سے اب تک کم از کم 20 ایسے لڑکے اور جوان مرد پولیس کو یہ بتا چکے ہیں کہ یہ پادری ان کے ساتھ بھی جنسی زیادتیوں کا مرتکب ہوا تھا۔
ان میں سے تو کئی ایسے بھی تھے، جن کی عمریں ان کے خلاف پادری کی طرف سے ارتکاب جرم کے وقت صرف سات سال تک تھیں۔
ارجنٹائن کی عورتیں اور مرد 16 سالہ لڑکی لوسیا پیریز کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کے خلاف بڑی تعداد میں سٹرکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ ان میں سے اکثریت نے کالے لباس پہن کر ہلاک شدہ لڑکی کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔
پولیس کے تفتیشی ماہرین کے مطابق پادری ہینڈرکس پر جن جرائم کے الزامات لگائے گئے ہیں، ان میں سے کئی کا ارتکاب تو ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصہ پہلے کیا گیا تھا۔ لیکن ساتھ ہی تفتیش کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ پادری شاید کئی نسلوں سے بچوں سے جنسی زیادتیوں کا مرتکب ہوتا رہا ہے اور یہ سلسلہ اس کی گرفتاری سے صرف چند ماہ پہلے تک جاری تھا۔ یہ امریکی پادری فلپائن کے اس گاؤں میں تقریباﹰ چالیس سال تک مقامی کیتھولک برادری کا مذہبی رہنما رہا تھا۔
اے پی نے اس بارے میں اپنے ایک تفصیلی جائزے میں لکھا ہے کہ پادری ہینڈرکس کے جرائم اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ انتہائی حد تک کیتھولک مسیحی عقیدے کے حامل اکثریتی آبادی والے ملک فلپائن میں کلیسائی شخصیات کی طرف سے جنسی جرائم کتنی دیر تک پوشیدہ رکھے جاتے ہیں۔
جنوب مشرقی ایشیا کے اسی ملک میں مقیم اور آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والے پادری شائے کلّن کو فلپائن میں کلیسائی فرائض انجام دیتے ہوئے کئی عشرے ہو چکے ہیں۔ وہ خاص طور پر ایسے افراد کی بحالی کے لیے کام کرتے ہیں، جو کم عمری میں جنسی زیادتیوں کا شکار رہے ہوں۔
ریورنڈ کلّن کہتے ہیں، ”یہ حقائق کو چھپائے رکھنے کی عادت ہے، خاموشی اختیار کیے رہنے کی روایت جو کلیسائی حکام کی طرف سے اپنی ذاتی حفاظت کا کلچر بن چکی ہے۔‘‘
فلپائن میں 2002ء میں ہونے والی کیتھولک بشپس کی قومی کانفرنس نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ کلیسائی حکام کی طرف سے بچوں سے جنسی زیادتیوں کے واقعات پر پائی جانے والی طویل خاموشی ختم کر دی جائے گی اور ایسے الزامات کا کھل کر سامنا کیا جائے گا۔
دوسری طرف ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ فلپائن میں، جہاں کیتھولک مسیحی عقیدے کے حامل شہریوں کی تعداد 80 ملین بنتی ہے، ماضی میں بھی ایسے کئی وعدے کیے گئے تھے لیکن وہ سب روایت، نام نہاد پاک بازی اور کلیسائی اثر و رسوخ کی نذر ہو گئے تھے۔
اس کا ثبوت یہ ہے کہ امریکی پادری ہینڈرکس کے بارے میں جزیرے بیلیران کے کئی باسیوں کا یہ خیال تو تھا کہ وہ شاید بچوں کے جنسی استحصال کے مرتکب ہوتے تھے لیکن پھر بھی اس بارے میں گزشتہ برس نومبر سے پہلے کسی نے کبھی کبھی کھل کر کچھ نہیں کہا تھا۔
فلپائن میں ایسے جرائم کا ارتکاب کتنے وسیع پیمانے پر کیا جاتا ہے، اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ ایک اور فلپائنی جزیرے بوہول پر جوزف سکیلٹن نامی پادری 30 سال سے زیادہ عرصے تک کیتھولک مذہبی فرائض انجام دیتا رہا تھا۔
اس پادری کو ایک 15 سالہ لڑکے کے ساتھ جنسی زیادتی کے جرم میں قصور وار قرار دیا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور پادری کو ایک 17 سالہ لڑکی کو ریپ کرنے کے الزامات کا سامنا بھی ہے۔