امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) وبائی امراض کے کئی ماہرین کی رائے میں امریکی عوام کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ان ڈور ماسک پہننا جلد ہی بند کر سکتے ہیں۔ اس کے دو بڑے اسباب ویکسینیشن میں اضافہ اور نئی انفیکشنز کی تعداد میں واضح کمی بتائے جا رہے ہیں۔
امریکا کورونا وائرس کی عالمی وبا سے اب تک سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے۔ لیکن ماضی میں اگر دنیا کی یہی سب سے بڑی معیشت اس وبا کا گڑھ بن گئی تھی تو آج وہاں صورت حال میں کافی بہتری آ چکی ہے اور بہتری کا یہ عمل تیزی سے جاری ہے۔
وبائی امراض کے کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا میں اب کورونا وائرس انفیکشن کے نئے کیسز ماضی کے مقابلے میں کافی کم ہو چکے ہیں۔ ایسا عام شہریوں کی ویکسینیشن مہم میں تیزی کی وجہ سے ممکن ہوا۔ ساتھ ہی حکومت کی طرف سے بار بار زور دیے جانے پر عوام کورونا وائرس کے خلاف احتیاطی تدابیر پر بھی زیادہ ذمے داری سے عمل کرتے رہے۔
اس بہتری کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ متعدی امراض کی روک تھام کے کئی امریکی اور غیر ملکی ماہرین اب اس بارے میں پُرامید ہیں کہ ممکن ہے کہ واشنگٹن میں وفاقی حکومت عنقریب ہی یہ فیصلہ کرے کہ بند جگہوں کے اندر اب ماسک پہننا لازمی نہیں ہے۔
یہ ابھی تک ثابت نہیں ہو سکا ہے کہ ماسک وائرل انفیکشن کو روکنے میں مؤثر ثابت ہوتے ہیں يا نہيں۔ ایسا بھی کہا جاتا ہے کہ ناک پر چڑھانے سے قبل ماسک ميں پہلے سے بھی جراثیم پائے جاتے ہيں۔ ماسک کا ايک اہم فائدہ یہ ہے کہ کوئی دوسرا شخص آپ کی ناک اور منہ سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ بیماری کی صورت میں یہ ماسک دوسرے افراد کو آپ سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔
اس ممکنہ اقدام کا ایک اور فائدہ یہ بھی ہو گا کہ ایسے شہری جنہوں نے اب تک کورونا کے خلاف ویکسین نہیں لگوائی، جب وہ دیکھیں گے کہ ویکسینیشن کروا لینے والے شہری اس وبا سے محفوظ بھی ہو گئے اور انہیں ماسک پہننے کی بھی ضرورت نہیں، تو ان کو بھی اپنی ویکسینیشن کروا لینے کی ترغیب ملے گی۔
متعدی امراض کی روک تھام کے امریکی مرکز سی ڈی سی اور اس کی ذیلی شاخوں کی طرف سے پہلے ہی یہ کہا جا چکا ہے کہ اب ایسے امریکی شہریوں کے لیے اپنے گھروں سے باہر نکلتے ہوئے ماسک پہننا ضروری نہیں، جن کی ویکسینیشن ہو چکی ہے۔ تاہم اگر وہ پُرہجوم مارکیٹوں یا بازاروں میں جا رہے ہوں، تو ان کو اب بھی ماسک پہننا چاہیے۔
اس بارے میں صدر بائیڈن بھی پُرامید ہیں کہ اب امریکا میں کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے عائد پابندیاں جلد نرم کی جا سکیں گی۔ صدر بائیڈن نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنے لیے یہ ہدف مقرر کیا تھا کہ امریکا کے چار جولائی کو منائے جانے والے قومی دن تک ملک کے 70 فیصد بالغ باشندوں کو کورونا ویکسین کی کم از کم ایک خوراک دی جا چکی ہو گی۔
برطانیہ کے مختلف علاقوں میں درجہٴ حرارت 36 ڈگری سینٹی گریڈ کے ساتھ گزشتہ بیس سالوں میں سب سے گرم ترین اگست کا مہینہ ہے۔ دوسری جانب ملک میں کورونا وائرس سے متاثرین میں بتدریج اضافہ جاری ہے۔ متعدد شہری پانی کے مزے لینے کے لیے برائٹن جیسے ساحل سمندر کا رخ کر رہے ہیں۔
تازہ اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو بائیڈن انتظامیہ اپنا پبلک ویکسینیشن ہدف جلد ہی حاصل کر لے گی۔ اسی وجہ سے صدر جو بائیڈن نے امریکی ریاستوں کے گورنروں کے ساتھ اپنی ایک حالیہ ملاقات میں یہ اشارہ بھی دے دیا کہ کورنا کی وبا کے باعث عائد پابندیاں آئندہ دنوں میں مزید نرم کی جا سکتی ہیں۔
امریکا میں اب تک تقریباﹰ 60 فیصد بالغ باشندوں کو کورونا ویکسین کا کم از کم ایک ٹیکہ لگایا جا چکا ہے۔
امریکا میں ان دنوں کورونا وائرس کی نئی انفیکشنز کی جو یومیہ شرح دیکھنے میں آ رہی ہے، وہ صرف تقریباﹰ 11 کیس فی ایک لاکھ شہری بنتی ہے۔ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ وائرس کے پھیلاؤ کی یہ شرح اس وقت دنیا کے کئی انتہائی متاثرہ ممالک میں ریکارڈ کی جانے والی ایسی ہی شرح سے بہت کم ہے اور مزید کم ہوتی جا رہی ہے۔
اسی پیش رفت کا ایک اور بہت امید افزا نتیجہ یہ بھی نکلا ہے کہ امریکا میں کورونا وائرس کے مریضوں میں اموات کی شرح اب انتہائی کم ہو کر 0.0001 فیصد ہو گئی ہے۔