ایران (جیوڈیسک) ایرانی گرین موومنٹ نے نہ صرف تہران حکومت بلکہ مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسیوں کو بھی چیلنج کیا تھا۔ لیکن اب ٹرمپ پالیسیوں نے نہ صرف قدامت پسند ایرانی حلقوں کو مضبوط بنایا ہے بلکہ اصلاحات پسندوں کو بھی کونے سے لگا دیا ہے۔
ایران کی قدامت پسند حکومت کو سن 1979ء میں انقلاب ایران کے بعد سے داخلی سطح پر کم ہی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ لیکن سن 2009ء کے انتخابات سے قبل اصلاحات پسندوں کی شروع ہونے والی تحریک نے تہران حکومت کو حیران کر دیا تھا۔ اس وقت شروع ہونے والے یہ احتجاجی مظاہرے سابق ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کے خلاف تھے لیکن ملک کے ’اصلی شیعہ حکمرانوں‘ نے اُسی وقت بھانپ لیا تھا کہ یہ ایک بڑی سیاسی و سماجی بغاوت کا آغاز ہے۔
تہران حکومت نے اس وقت گرین موومنٹ کے خلاف بے دردی سے طاقت کا استعمال کیا تھا اور اصلاحات پسند صدارتی اُمیدواروں میر حسین موسوی اور مہدی کروبی کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔ دوسری جانب اس بڑے حکومتی کریک ڈاؤن سے بھی مظاہرین خوفزدہ نہیں ہوئے تھے اور لاکھوں ایرانی شہریوں نے تہران، اصفہان اور شیراز کی سڑکوں پر حکومتی فورسز کا مقابلہ کرتے ہوئے حکومت مخالف نعرے بلند کیے تھے۔
گرین موومنٹ ایرانی مڈل کلاس شہری طبقے کی نمائندگی کرتی تھی۔ یہ وہ شہری ہیں، جو ملک کے مذہبی نظام سے اُکتا چکے ہیں۔ یہ ایرانی طبقہ ملک کے سیاسی نظام میں مکمل اصلاحات چاہتا ہے تاکہ مزید آزادی اور حقوق حاصل ہو سکیں۔ گرین موومنٹ کا سب سے بڑا اور مقبول نعرہ یہ تھا کہ ’’میرا ووٹ کہاں ہے؟‘‘
اس تحریک کو امریکا اور یورپ سمیت دنیا بھر میں رہنے والے ایرانی تارکین وطن کی حمایت بھی حاصل تھی۔ یہ تحریک اُن امریکی پالیسیوں کے خلاف بھی تھی، جو اُس نے مشرق وسطیٰ میں اپنا رکھی ہیں، خاص طور پر وہ پالیسیاں، جو سعودی عرب اور اسرائیل کے حوالے سے ہیں۔
اس تحریک کا سامراج مخالف موقف تہران حکومت کے اس نعرے سے الگ تھا، جو اس نے امریکا کی مخالفت میں اپنا رکھا ہے۔ اس تحریک کا کہنا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں جاری امریکی پالیسیاں ایران کے قدامت پسند حلقوں کو کمزور بنانے کی بجائے انہیں طاقتور بنا رہی ہیں۔
دس برس قبل ہونے والی گرین تحریک اب انتہائی کمزور پڑ چکی ہے اور تہران حکومت پہلے سے بھی کئی گنا زیادہ طاقتور ہو چکی ہے۔ موجودہ ایران امریکا تنازعہ تہران حکومت اور اس کے روحانی رہنما علی خامنہ ای کو مزید مضبوط بنا رہا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے سے پہلے ایران کے اعتدال پسند صدر حسن روحانی اس قابل تھے کہ وہ ایران اور مغربی دنیا کو ایک دوسرے کے قریب لا سکیں لیکن اب وہ بھی ڈرائیونگ سیٹ پر نہیں رہے۔
ایک غیر سرکاری تنظیم کرائسزگروپ کے پروجیکٹ ڈائریکٹر علی واعظ کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’امریکا کے ساتھ ایک فوجی تنازعہ ایرانی قدامت پسندوں کے لیے ایک خدائی تحفہ ہو گا۔ وہ اسے مقامی سطح کو مزید فوجی رنگ میں ڈھالنے کے لیے استعمال کریں گے اور طاقت کے تمام پُرزوں پر ان کی گرفت مزید مضبوط ہو جائے گی۔‘‘
ماہرین کے مطابق خلیج فارس میں ایک فوجی تنازعہ ایرانی اصلاحات اور ترقی پسند حلقوں کے لیے گنجائش مزید کم کر دے گا۔ سن دو ہزار سترہ اور اٹھارہ کے حکومت اور خواتین کے اسکارف کے خلاف شروع ہونے والے مظاہرے اب ماضی کا حصہ ہیں۔
سن 1979ء سے استعمال ہونے والے ایران اور اسرائیل مخالف بیانیے کو مزید طاقت جمع کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ امریکا کی نئی پالیسیوں نے اِسے دوبارہ زندہ کر دیا ہے۔