تحریر : مرزا روحیل بیگ بین الاقوامی سیاست میں ہر ملک اپنے قومی مفادات کا اسیر ہوتا ہے۔ جب کسی ریاست کے قومی مفادات کا سوال پیدا ہوتا ہے تو پھر اس وقت کوئی دشمن یا دوست نہیں ہوتا۔ امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی پریشان کن اور مبہم تاریخ، اس سیاسی حقیقت پسندی کی بہترین مثال ہے۔ 1947 کے بعد سے ہی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کشیدہ اور مبہم رہے ہیں۔ علاقائی اور بین الاقوامی طور پر دونوں ممالک ایک دوسرے کے مفادات سبوتاژ کرتے رہے ہیں جبکہ 11 ستمبر 2001 کے بعد سے پاکستان نے ان تعلقات کی بھاری قیمت ادا کی۔ پاکستان کے خلاف ٹرمپ کی الزام تراشی اور امریکہ کی جانب سے بھارت کی حمایت کے باعث اسلام آباد، واشنگٹن کے متعلق اپنی خارجہ پالیسی تبدیل کرنے پر مجبور ہو چکا ہے۔ امریکی جرنیل کا کہنا ہے کہ افغانستان میں کامیابی کے لیئے طریقہ کار پر اختلاف ہے لیکن پاکستان کے اندر فوجی کاروائی کی منصوبہ بندی نہیں کر رہے۔
پینٹاگان نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ جنوبی ایشیائی خطے میں دہشت گردوں کو شکست دینے کے لیئے وہ امریکی کوششوں میں شامل ہو جائے۔ پاکستان نے امریکہ پر واضح کیا ہے کہ پاکستان ایک آزاد اور خودمختار ملک ہے اور اس کی حاکمیت اعلی کا احترام کیا جانا چاہیئے۔ امریکی رہنماؤں کے بیانات میں تضاد دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے امریکی تھنک ٹینک خود ہی پاکستان کے حوالے سے پالیسی بارے واضح نہیں ہیں۔ اسی لیئے تو کبھی ٹرمپ کی جانب سے دھمکی نما بیان سامنے آتا ہے تو کبھی امریکی جرنیل پاکستان کے اندر فوجی کاروائی کی منصوبہ بندی نہیں کر رہے کا بیان داغ دیتے ہیں۔ پاکستان بارے منقسم امریکی پالیسی کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ کے پالیسی سازوں کا ایک حصہ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف کی جانے والی کوششوں کو تسلیم کرتا ہے تو دوسرا پاکستان پر افغانستان میں اپنی ناکامی کا ملبہ ڈالنے کا خواہش مند ہے۔
امریکی پالیسی سازوں کے بیانات میں پائے جانے والے تضاد سے پاکستان کو بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیئے اور مضبوط سفارت کاری کے ذریعے پاکستان کے امیج کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے ہراول دستے کا کردار احسن انداز میں نبھایا ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ امریکہ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف کی جانے والی کوششوں سے مطمئن نہیں، اسی لیئے تو پاکستان پر دباؤ بڑھایا جا رہا ہے۔ مگر مجال ہے کہ کبھی اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کی بھی زحمت گوارہ کی ہو۔ پاکستان ایک آزاد اور خودمختار ملک ہے، ایسے میں امریکہ کی جانب سے آنے والے مخالفانہ بیانات افغان امن عمل کو مسلسل دور لے کر جا رہے ہیں۔
جنوبی ایشیائی خطے میں امریکہ ہر قیمت پر اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنا چاہتا ہے، جس کے دو بڑے مقاصد ہیں، ایک تو مستقبل کی سپر پاور چین پر نظر رکھنا تو دوسرا افغانستان کی زمینوں میں دفن خزانے پر قبضہ کرنا ہے۔ ان مقاصد کے حصول کے لیئے امریکہ اپنی حکمت عملی مرتب کر رہا ہے۔
پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے اس لیئے امریکہ پر لازم ہے کہ وہ اس کی خود مختاری کا ہر صورت احترام کرے اور ڈکٹیشن دینے سے گریز کرے۔ کیونکہ اگر امریکی رویے میں تبدیلی نہ آئی تو اس سے دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں دراڑ پڑنے کا خدشہ ہے۔ جس سے افغان امن عمل براہ راست متاثر ہو گا۔ امریکی انتظامیہ کی ان پالیسیوں کے باعث ہی پاکستان امریکہ تعلقات کی 70 سالہ تاریخ میں پہلی بار ان دونوں ممالک میں کشیدگی انتہا کو پہنچی ہے، اور پاکستان کو بھی ٹرمپ انتظامیہ کو بالآخر باور کرانا پڑا کہ وہ اسے اپنے لیئے نرم چارہ ہرگز نہ سمجھے۔ پاکستان اپنی سلامتی اور خودمختاری کے تحفظ و دفاع کی مکمل استعداد و صلاحیت رکھتا ہے۔ اس پر امریکی لہجے میں نرمی پیدا ہوئی، اور واشنگٹن اور پینٹاگان کی جانب سے اس امر کا اظہار سامنے آنے لگا کہ اعتماد سازی کی بحالی کے لیئے پاکستان کے ساتھ مزاکرات کے دروازے کھلے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ ایک جانب تو افغانستان میں امن کی بحالی کے لیئے متفکر نظر آتی ہے جبکہ دوسری جانب نہ صرف کابل حکوت پر افغان سرزمین پر موجود دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ختم کرنے پر زور نہیں دیا جاتا، بلکہ افغانستان میں تعینات امریکی افواج بھی دہشت گردوں کے ان ٹھکانوں سے دانستہ صرف نظر کیئے ہوئے ہیں۔ اگر امریکہ اور افغان حکومت صحیح معنوں میں افغانستان میں امن کا قیام چاہتے ہیں تو انہیں پاکستان کے بارڈر محفوظ بنانے پر خوشی ہونی چاہیئے تھی۔ لیکن ان کی جانب سے پاکستان پر الزام تراشی کا لامتناہی سلسلہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ اسی لیئے حقانی نیٹ ورک کے خلاف کاروائی کی بات کی جاتی ہے۔ حالانکہ افغانستان میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات امریکی فوج کی امن میں ناکامی کے سوا کچھ نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکہ پاکستان کو دباؤ میں لانے کی حکمت عملی کو خیر آباد کہے اور افغانستان میں امن کے قیام کے لیئے مقامی لوگوں پر مشتمل حکومت تشکیل دے، اور ساتھ ہی ساتھ بھارت کی افغانستان میں بڑھتی ہوئی مداخلت کا بھی عالمی سطح پر نوٹس لیا جانا چاہیئے۔