تحریر : طارق حسین بٹ شان سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں اسلامی ممالک کی سربراہی کانفرنس سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا خطا ب اپنی نوعیت کا انتہائی پر اثر خطاب تھا۔٥٥ اسلامی ممالک کے سربراہانِ مملکت اس کانفرنس میں شریک ہوئے تھے جس سے امریکی صدر ڈونلنڈ ٹرمپ نے خطاب کرنا تھا۔سارے راہنما بھاگم بھاگ اس کانفرنس میں شریک ہوئے کیونکہ انھیں امریکی صدر کے دربار میں حا ضری لگوانی تھی۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف بھی اس کانفرنس میں شریک تھے لیکن ان کی موجودگی کو نظر انداز کیا گیا اور انھیں خطاب کی دعوت بھی نہ دی گئی جو بہت حیران کن تھا ۔کیا امریکہ ان سے ناراض ہے؟اگر امریکہ کی ناراضگی کا تاثر پیدا ہو گیا تو مسلم لیگ (ن) کیلئے اگلا الیکش جیتنا ممکن نہیں ہو گا کیونکہ پاکستان میں اقتدار کا راستہ واشنگٹن سے ہو کر آتا ہے اور کون بد بخت ہو گا جو اپنے راستے کو خود پر خار کرنے کی کوشش کرے گا ؟ریاض میں یہ کانفرنس چین کی ون بیلٹ ون روڈ (ابور) کی کانفرنس کے چند روز بعد انعقاد پذیر ہوئی تھی لہذا اس کی اہمیت دو چند تھی۔ابور میں بھارت اور امریکہ شریک نہیں ہو ئے تھے جبکہ اس میں روس چین پا کستان اور ترکی کی شرکت بڑی نمایاں تھی۔یہ دونوں جانب سے نیو ورلڈ آرڈر قائم کرنے کی ایک طرح کی ریہرسل تھی۔چین اپنی سرمایہ کاری سے جبکہ امریکہ اپنی ٹیکنا لوجی سے دنیا پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتے ہیں۔
اس کانفرنس کی وساطت سے پورے عالمِ اسلام نے امریکہ کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیاہے جبکہ یورپی اقوام پہلے ہی اس کے ساتھ کھڑی ہیں ۔بھارت اس کے سچے حاشیہ بردار کا کردار ادا کرنے کیلئے اس کے ایجنڈے پر کام کر رہا ہے لہذا س وقت امریکہ کا ہلڑابہت بھاری ہے۔لیکن اس کے باوجود چین روس کی مدد سے اس نئی مسند کا امیدوار ہے جو اسے عالمی قیادت کا تاج پہنا دے۔سرمایہ کاری کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں ہے کیونکہ برِ صغیر میں ایسٹ انڈیا کمپنی بھی سرمایہ کاری کے بہانے سے ہی دا خل ہوئی تھی اور اس کے بعد سب تاریخ ہے۔سرمائے کی قوت اور اس کی اثر آفرینی اپنی جگہ مسلمہ ہے کیونکہ یہ بے روزگاری اور دھشت گردی کا خاتمہ کرتی ہے اور قوموں کی زندگی میں خو شخالی کے پھول کھلاتی ہے ۔اور پھول تو سب کے دل کو بھاتے ہیںلہذا اقوامِ عالم کا چین کی طرف راغب ہونا در اصل اپنی خوشخالی کو پھلتے پھولتے دیکھنے کی حواہش کو بیدار کرنا ہے ۔ اقوامِ عالم چینی نعرے ابور سے متاثر ہیں کیونکہ اس میں انھیں عوامی فلاح کی نوید سنائی دے رہی ہے۔ایسے بہت سے ممالک جو کل تک سی پیک کی مخالفت میںپیش پیش تھے اب سی پیک کے ثمرات سے اپنی جھولیاں بھرنا چاہتے ہیں لہذا اقوامِ عالم کا چین کے لئے نرم گوشہ رکھنا چین کے نئے ورلڈ آرڈر کی اہمیت کو تسلیم کرنے کی جانب اہم پیش قدمی قرار دیاجا سکتا ہے۔،۔
کوئی قوم ایک دم میں نہ تو اقوامِ عالم کی قائد بنتی ہے اور نہ ہی ایک دن میں اپنی پوزیشن سے دستبردار ہو تی ہے۔اسے اپنی اہمیت بنانے یا اپنی اہمیت کھونے کیلئے تین نسلوں کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔چیرمین مائوزے تنگ سے شروع ہونا والے چین کا سفر اب اپنے انتہائی اہم موڑ میں داخل ہو چکا ہے۔ اب چین کی نگاہیں افق کے اس پار جمی ہو ئی ہیں۔وہ صرف ایشیا کو ہی نہیں دیکھ رہا بلکہ وہ اپنے پائوں نیوزی لینڈ اور اسٹریلیا تک پھیلانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔گویا کہ چین پوری دنیا کو اپنے حلقہِ اثر میں لانے کی تگ و دو میں ہے۔کسی زمانے میں روس امریکہ کے مدِ مقابل ہوا کرتا تھا لیکن افغان جنگ میں روسی شکست کے بعد سویت یونین دنیا کے نقشے سے غائب ہوا اور بہت سی ریاستوں نے اپنی آزادی کا اعلان کر دیا تو سویت یونین قصہِ پارینہ بن کر رہ گیا ۔کیا یہ حیران کن امر نہیں کہ پوری دنیا کو اپنی جوتی کی نوک پر رکھنے والا سویت یونین خوداپنی سالمیت کا دفاع نہ کر سکا اور ایک چھوٹی سی ریاست افغا نستان کے ہاتھوں اپنے انجام سے دوچار ہوا۔ایک ایساا نجام جس پر دنیا آج بھی اگشت بدندان ہے۔کہاں افغانستان اور کہاں سویت یونین ۔کوئی مقابلہ نہیں لیکن معمولوں نے شہباز کا شکار کیا ۔یہ ایک بڑی ہی غیر معمولی داستان ہے جس کی روح کو دنیا ابھی تک سمجھنے سے قاصر ہے۔اقبال اسے سمجھتے تھے اس لئے کہتے تھے۔
اٹھا ساقیا پردہ اس راز سے۔،۔لڑا دے معمولے کا شہباز سے افغانستان میں روسی ہزیمت کو تیس سال ہونے کو ہیں اور اس دوران پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔ دلا میر پوٹین کی صورت میں روس کو ایک ایسا لیڈر مل گیا ہے جس نے سویت یونین کی خاکستر سے نئے روس کی پر شکوہ عمارت قائم کرنے کی ٹھان رکھی ہے لیکن تا حال وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکا کیونکہ وقت کا پہیہ بہت آگے نکل چکا ہے ۔اپنے دیرینہ حریف چین کی ترقی پر اس کی نظریں ہیں اور وہ چینی سنگت میں عظمتِ رفتہ کو پانے کا خواب دیکھ رہا ہے۔،کیا چین اپنے دیرینہ حریف روس کی اس حواہش کی برومندی میں اس کی مدد کرے گا؟کیا وہ روس کو اس کا نیا مقام دے گا یا اسے ایک سیڑھی کے طور پر استعمال کرے گا ؟ کیا وہ دل سے روس کو بڑھوا دے گا یااسے اپنا غلی بچہ بنا کر رکھے گا جس طرح امریکہ نے بھارت اور برطانیہ کو رکھا ہوا ہے؟روس کے لئے شائد اپنے اس دیرینہ مقام پر دوبارہ متمکن ہونا ممکن نہیں ہے جہاں پر وہ کئی سال قبل تھا۔اب کسی دوسرے کی باری ہے،بالکل ویسے ہی جیسے عظیم رومن ایمائر کے بعد اسلامی ریاست ابھر کر سامنے آئی تھی اوراس کرہِ ارض پر اس نے کئی صدیاں حکومت کی تھی۔یہ ایک ایسا سلسلہ ہے جسے کہیں رکنا نہیں ہوتا۔ایک کے بعد دوسرے کی باری ہوتی ہے لیکن حیران کن بات یہی ہے کہ سب اپنی باری سے اپنی کرتوتوں اور حرکتوں سے دستبردار ہو تے ہیں۔انھیں کوئی گھسیٹ کر یا کھینچ کر اس مسند سے نہیں اتارتا۔ دنیا اپنی ہئیت میں بالکل بدل چکی ہے ۔کل کا کلچر اور اقدار دم توڑ رہی ہیں اور اس کی جگہ ٹیکنالوجی کی قوت اپنے پنجے گاڑھ رہی ہے۔کل تک جو ناممکن لگتا تھا وہ آج ممکن دکھائی دیتا ہے۔ٹیکنالوجی کی دنیا امریکہ کی مٹھی میں بند ہے اور وہ پوری دنیا کا بے تاج بادشاہ ہے۔
اسلحہ کی فیکٹریاں ہو ں، میڈیا کی ایجادات ہوں یا میڈیکل سائنس کے حیرت انگیز مظاہر ہوں امریکہ کا مقابلہ کسی قوم کے بس میں نہیں ہے۔وہ جہاں چاہتا ہے سیاسی ہلچل مچا دیتا ہے،جسے چاہتا ہے معزول کر دیتا ہے ،جسے چاہتا ہے اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھا دیتا ہے،جسے چاہتا ہے اقتدار سے بے دخل کر دیتاہے، کبھی وہ پھانسی گھاٹ تک لے جاتا ہے اور کبھی بلوائیوں سے سرِ عام مردِ آہن کو موت کا پروانہ تھما دیتا ہے۔یہ بات سب کے مشاہدے کی ہے کہ وہ کس طرح میڈیا کی طاقت سے بڑے بڑے مضبوط حکمرانوں کے خلاف ایسا طوفان اٹھا دیتا ہے کہ انھیں معزول ہوتے ہی بنتی ہے۔
مصر کا حسنی مبارک،عراق کا صدام حسین،لیبیا کا کرنل معمر القضافی،تیو نس کا زین العابدین اور یمن کا عبداللہ اس کی بڑی ہی واضح مثالیں ہیں۔شام کے بشار االا سد کو اس نے ابھی تک ہوا میں لٹکا رکھا ہے ۔جنرل پرویز مشرف جس طرح امریکی شہ پر تخت نشین ہو اتھا امریکی ناراضگی سے اب جلا وطنی کی زندگی گزار رہا ہے۔اگر جنرل راحیل شریف اسے بغاوت کے مقدمے سے ریلیف نہ دلواتے تو اب تک آئین کی دفعہ چھ کے تحت اس کی لاش کسی چوراہے میں لٹک رہی ہوتی اور پاکستانی قوم اس کے ساتھ وہی سلوک کرتی جو اٹلی کے آمر مسولینی کے ساتھ اہلِ روم نے کیا تھا۔لیکن اس کا کیا کریں کہ جنرل پرویز مشرف اب بھی خود کو پاکستانی قوم کا نجات دہندہ سمجھ رہا ہے۔اسے وقت ملا تھا لیکن وہ خود کو بھول کر نخو و تکبر کا پیکر بن گیا تھا۔وہ سمجھ رہا تھا کہ اقتدارسدا اس کے ساتھ رہیگا لیکن کیا کسی کے پاس سدا اقتدار رہا ہے جو اس کے ساتھ رہتا ۔جس کسی نے بھی ایسا سوچنے کی غلطی کی اس کا انجام بہت برا ہوا او جنرل پرویز مشرف کا انجام اس انجام کی بد ترین شکل ہے۔۔،۔،۔،۔،
Tariq Hussain Butt Shan
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال