تحریر : حفیظ خٹک ڈونلڈ ٹرمپ ، امریکہ کے وہ صدر ہیں جو کہ اپنے صدارتی انتخاب سے اب تلک امریکی عوام میں ہی تنقید کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ امریکی تاریخ میں اس نوعیت کا یہ پہلا صدر ہے کہ جن کے انتخاب پر ان عوام اب تک غم و غصے کی کیفیت سے دوچار ہیں۔امریکہ کے محالفین کواس ان کے انتخاب سے خوشی ہوئی ہے لیکن جس ممالک امریکہ کے دوست ہیں ان کی کیفیت بھی اضطرابیت پائی جاتی ہے ۔ڈونلڈ ٹرمپ صدارتی منصب سنبھالنے سے قبل اک متنازعہ شخصیت رہے ہیں۔ رنگ کے اندر پہلوانوں کا ایک دوسرے کو مارنے والے کھیل ریسلنگ تک کے وہ دلدادہ رہے ہیں اور ماضی میں وہ اس کھیل کے اندر بھی ایک شاطر کی طرح اپنا کردار ادا کرنے کے ساتھ جیتے رہے ہیں۔ بہرحال انتخاب ہوئے او رہیلری کلنٹن کو شکست ہوئی جس کا امریکی عوام سمیت دنیا کے امن پسندوں تک کو دکھ ہوا تاہم انہوںنے اپنی شکست کو قبول کرتے ہوئے اپنے فرائض کو رواں رکھا ہوا ہے۔ دوسری جانب امریکی عوام ڈونلڈ کے ہر اقدام پر احتجاج کرتی چلی آرہی ہے۔ صورتحال تو یہاں تک آگئی ہئے کہ انہیں ذہنی مریض قرار دے کر ہٹانے کیلئے بھی میدان تیار کئے جارہے ہیں۔
امریکی صدر نے چند روز قبل افغانستان کے حوالے سے اپنے خیالا ت کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان پر شدید تنقیدکی۔ پاکستان کی عالمی امن کیلئے مثبت کردار کو نظراندازکرتے ہوئے یہاں تک کہا کہ وہ پاکستان کو بھاری رقم امداد کی صورت میں دیتا ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی کہا کہ عالمی دہشت گردی تنظیمیں پاکستان کی سرزمین میں موجود ہیں اور وہ وہاں سے اپنی کاروائیاں کرتی ہیں۔ حکومت پاکستان کو ان کی نظر میں ان کی احکامات کو پورا کرتے ہوئے do more کی پالیسی میں تبدیلی کرتے ہوئے do,do,do moreکی ریت پر چلنا ہوگا اس طرح سے وہ حکومت کی مختلف فنڈز کی صورت میں امداد جاری رکھے گا۔اس بات کے علاوہ بھی انہوں نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے قربانیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے واضح الفاظ میں پاکستان پر تنقید کی۔ امریکی صدر کے خیالات سے بھارتی حکومت کو اطمینان سمیت خوشی ہوئی۔ بھارت جس کا ابتداءسے اب تلک کردار منافقانہ ہے مقبوضہ کشمیر میں برسوں سے انسانیت سوز مظالم جاری رکھے ہوئے ہے اس کے ساتھ بھارت میں دیگر مذاہب کی عوام بھی ان کے مظالم کو سہہ رہیں ہیں بھارتی حکومت کو کھبی بھی امریکہ نے اور اس کے ساتھ انسانی حقوق کی این جی اووز نے ان مظالم سے روکنے کی کوشش تو دور کی بات ہے اس کے خلاف آواز و احتجاج تک نہیں کیا۔ پاکستان کے ساتھ واقع سرحدوں پر آئے روز ان کی جانب سے گولہ باری اور فائرنگ جاری رہتی ہے جس سے متعدد شہری زخمی و شہید ہوچکے ہیں۔
امریکی صدر کے اس اقدام کے بعد حکومت پاکستان کی جانب سے ابتداءمیں خاموشی اختیار کی گئی تاہم سپہ سالار کی جانب واضخ اور دوٹوک جواب نے امریکی صدر سمیت اس کی حکومت و دیگر تمام حمایتیوں کو بتا دیا کہ پاکستان کی صورتحال اب ماضی جیسی نہیں ہے اب یہاں بہت کچھ بدل گیا ہے اور پاکستان کو کسی کی امداد کی ضرورت نہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔ تحریک انصاف کے عمران خان نے بھی امریکی بیان پر پریس کانفرنس کی اور اس میں اپنے انداز سے امریکہ کو جواب دیا۔ بعدازان حکومت وقت نے بھی ایسا ہی قدم اٹھایا۔ حکومت نے اپنے وزیر داخلہ کا امریکہ دور تک منسوخ کردیا اور اس کے ساتھ ممبران اسمبلی و سنینٹ و دیگر نے بھی امریکی اقدا م پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا۔
پاکستان کی قوم دنیا کی سب زیادہ جذباتی قوم ہے، دنیا کے کسی بھی خطے میں کوئی حادثہ، سانخہ،سیلاب و زلزلہ یا کوئی اور آفت آتی ہے تو پوری قوم اس کی مدد کے جذبات اپنے دلوں سے باہر نکالتی ہے اور اپنے تئیں بھرپور کوشش کرتی ہے کہ اس لمحوں میں امداد کی جائے۔ اس طرح سے وطن عزیز کے اندر بھی عوام کا یہی خال ہے، سیلاب آئیں یا بارشیںکی زیادتی ہو، زلزلہ کے نقصانات ہوں یا پھر کوئی بھی اور قابل رحم معاملہ ہرصورت عوام اپنا فریضہ اداکرتے ہیں۔
امریکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ اقدام پر عوامی رائے جاننے کیلئے سروئے کیا گیا جس میں صد فیصد عوام کی رائے ایک تھی، سبھی یہ کہتے رہے کہ امریکہ ہمیں کم تر سمجھتا ہے جبکہ اس وقت دنیا کی نظریں ہمارے وطن عزیز پر ہیں۔ چین کی مدد سے بننے والے سی پیک منصوبے سے امریکہ اور اس کے دیگر تمام ہم خیال ممالک نہیں چاہتے کہ پاکستان معاشی طور پر مضبوط ہواور عالمی سطح پر اس کا بہتر امیج سامنے آئے۔ عوام نے چین کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ چین واحد ملک ہے جو کہ پاکستان کا سچا دوست ہے اور اس نے ہمیشہ دوستی کا پورا ساتھ دیا ہے۔سی پیک منصوبے سے روسی حکومت بھی پاکستان کے حمایت میں آگئی ہے اور امریکی صدر کے اقدام کے بعد روسی تنقید اس بات کا واضح ثبوت ہے۔ مذہبی حماعتوں کے متعدد کارکنان کا یہ موقف تھا کہ امریکہ خود ایک دہشت گرد ملک ہے ، دوعشروں میں اس کا کردار صرف ہماری حکومت اور عوام کے نہیں دنیا کے دیگر ممالک اور عوام کے سامنے ہے۔ صرف اپنے مفاد کیلئے وہ جنگ کی فضا خود بناتا ہے اور پھر اس کے بعد اس جنگ کی ابتداءخود کر کے اپنے دیگر حمایتی ممالک کو اس جنگ میں ڈال دیتا ہے ۔ امریکی حکومت کے ان اقدامات پر حکومت پاکستان کا واضح اور دوٹوک موقف اختیار کرنا چاہئے۔پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ میں بے پناہ قربانیاںدیں جن کا احساس دنیا کے سبھی ممالک کو ہے تاہم اب اگر امریکی حکومت کا صدر اس نوعیت کی روش اختیار کرئے گا تو اس سے پاکستان کی صورتحال پر تو کوئی اثر نہیں پڑے گا نقصان امریکہ کا ہی ہوگا۔
شہر قائد کی عوام نے امریکی صدر کے اس بیان کی شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہے اور پوری قوم فوج کے سپہ سالار نے جو بھی جواب دیا وطن عزیز کی پوری عوام کے وہی جذبات تھے، ہیں اور وطن کیلئے یہی رہیں گے۔سیاسی جماعتوں کے رہنماﺅں کا کہناتھا کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں پاکستان کے 70ہزار افراد قربان ہوئے ہیں، زخمیوں کی تعداد سمیت دیگر معاشی نقصانات الگ ہیں یہ سب وہ ظاہری قربانیاں ہیں کہ جو اقوام متحدہ کے ہر رکن ملک کو نظر آتی ہیں اور وہ پاکستان کے کردار پر نہایت مثبت انداز میں سامنے رکھتے ہیں۔ تاہم اس کے باوجود امریکی صدر کا یہ کردار قابل مذمت ہے۔ ان کا یہ بھی خیال تھا کہ امریکی صدر سے ان کی اپنی عوام مطمئن نہیں، امریکی صدر کا یہ اقدام مخص بھارت کو ساتھ ملا کر اسے خوش کرنے کیلئے کیا گیا ہے، بھارت جس کی سرحد افغانستان سے دور ہے وہ کیسے افغانستان کی تعمیر و ترقی میں مثبت کردار ادا کرسکتا ہے۔ بھارت امریکہ کے ساتھ پاکستان میں سازشیں کر رہے ہیں اور انہی سازشوں کا یہ ایک قدم ہے۔
بعض سیاسی کارکنوں نے حکومت وقت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ ویزر اعظم جو کہ ابھی تک خود کو وزیر اعظم نہیں سمجھ رہے ہیں اور سابقہ وزیر اعظم جنہیں اس ملک کی عدالت نے نااہل قرار دیتے ہوئے نیب کو مزید کاروائی کا حکم دیا ہے اس صورت میں بھی یہ وزیر اعظم یہ کہتے ہیں کہ وزیر اعظم نواز شریف ہی ہیں۔ یہ قدم اک کمزور وزیر اعظم کی عکاس ہے۔ نواز شریف کا بھی امریکی صدر کے اس اقدا م پر تاحال کوئی واضح ردعمل نہیں آیاہے جو کہ اک قابل توجہ بات ہے۔سیاسی و مذہبی جماعتوں کے اپنے اختلافات اپنی جگہ پر درست ہوسکتے ہیں اور جمہوریت میں ایسا ہوتا ہے تاہم ملکی سالمیت کی جب بھی بات آجائے تو ایسی صورت میں ایک صف میں ہی سب کو کھڑا ہوجانا چاہئے۔ پاکستان کی عوام نڈر عوام ہے اور وہ ہر طرح کی صورتحال کا سامنا کرنے کو تیار ہے لہذا ایسی عوام کے حکمرانوں کو بھی حقیقی انداز میں عوامی قائد کا کردار ادا کرنا چاہئے۔ وہ وقت جلد آئے گا کہ جب یہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ یہ کہے گا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو کردار پاکستان نے ادا کیا ہے وہ نہایت قابل تعریف ہونے کے ساتھ قابل تحسین بھی ہے۔