پینسلوانیا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکہ کے نو منتخب صدر جو بائیڈن نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں کہا کہ وہ وعدہ کرتے ہیں کہ وہ ایک ایسے صدر ہوں گے جو تفرقہ پھیلانے کے بجائے لوگوں کو متحد کرے گا، جو نیلی ریاست (ڈیموکریٹس) یا لال ریاست (رپبلکن) نہیں دیکھے گا بلکہ پورے امریکہ کو دیکھے گا اور اپنا پورا دل و جان لگا کر اپنی قوم کا اعتماد جیتنے کی کوشش کرے گا۔
واضح رہے کہ متوقع نتائج کے مطابق جو بائیڈن نے سخت مقابلے کے بعد موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو منگل کو ہونے والے صدارتی انتخاب میں شکست دے دی۔
صدر ٹرمپ نے اب تک شکست تسلیم نہیں کی ہے اور ہفتے کے روز انتخاب کے متوقع نتائج کے اعلان کے بعد عوام سے گفتگو نہیں کی ہے اور وہ گالف کھیلنے میں مصروف تھے۔
یہ 1992 کے بعد پہلا موقع ہے کہ کوئی صدر اپنے پہلے دورِ صدارت کے بعد دوسری بار صدر منتخب ہونے میں ناکام ہوا ہو۔
ریاست ڈیلاوئیر کے شہر ولمنگٹن کے چیز سینٹر میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے نو منتخب صدر جو بائیڈن نے مزید کہا کہ وہ بہت شکر گزار ہیں کہ ان پر بھروسہ اور اعتماد کیا گیا جس کی مدد سے وہ امریکی صدارتی انتخابات کی تاریخ میں سات کروڑ چالیس لاکھ سے زیادہ ووٹ حاصل کر کے سب سے زیادہ ووٹ لینے والے صدر بن گئے۔
‘میں نے اس عہدے کے لیے اس لیے مقابلہ کیا تاکہ میں امریکہ کی روح کو دوبارہ بحال کر سکوں، تاکہ اس ملک کو دوبارہ تعمیر کر سکوں، اس کے متوسط طبقے اور پورے امریکہ کے وقار کو دنیا بھر میں بحال کر سکوں، اور اپنے ملک میں ہم سب کو یکجا کر سکوں۔’
نو منتخب صدر جو بائیڈن کا مزید کہنا تھا کہ یہ ان کے لیے بہت عزت کا مقام ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں انھیں ووٹ دیے گئے تاکہ وہ اپنے مشن کو پورا کر سکیں۔
جو بائیڈن نے افریقی امریکی ووٹرز کا بالخصوص شکریہ ادا کیا جنھوں نے انھیں ڈیموکریٹک امیدوار چننے کے مقابلے جیتنے میں مدد کی تھی۔
اپنے خاندان اور اپنی نومنتخب نائب صدر کملا ہیرس کا شکریہ ادا کرنے کے بعد جو بائیڈن نے اس تمام اتحاد کا شکریہ ادا کیا جنھوں نے ان کو ووٹ دیا جن میں نوجوان، بڑی عمر کے لوگ، شہروں اور گاؤں میں رہنے والے اور مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے۔
اس کے بعد جو بائیڈن نے صدر ٹرمپ کے حامیوں کو بھی مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ایک دوسرے کو موقع دینا ہوگا۔
‘اب وقت آ گیا ہے کہ ہم سخت الفاظ کا استعمال بند کریں، ماحول کی گرمی کو کم کریں، ایک دوسرے کو دیکھیں، ایک دوسرے کو سنیں، اپنے حریفوں کو دشمن سمجھنا بند کریں۔’
عبرانی زبان کی کتاب ایکلیسیاٹیس کا حوالے دیتے ہوئے نو منتخب صدر جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ ہر چیز کا اپنا وقت ہوتا ہے اور ‘یہ وقت ہے امریکہ کے زخم مندمل کرنے کا۔’
انھوں نے کہا کہ وہ ان افراد کے لیے بھی اتنی ہی محنت کریں گے جنھوں نے ان کو ووٹ نہیں دیا، جتنا ان لوگوں کے لیے جنھوں نے ان کو ووٹ دیا۔
جو بائیڈن نے کہا کہ کورونا وائرس کی وبا کو قابو میں لانا ان کا سب سے پہلا کام ہوگا۔ انھوں نے کہا ‘صرف ایسا کرنے کے بعد ہی ہم جینے کا قابل ہو سکیں گے۔’
کورونا وائرس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ وہ پیر کو اپنی کورونا وائرس ٹیم کا اعلان کریں گے۔
‘میں پیر کے روز اپنی ٹیم کا اعلان کروں گا جو سائنسدان اور ماہرین پر مشتمل ہوگی جو کہ بائیڈن۔ہیرس منصوبے کر عمل درآمد کرے گی جس کا آغاز 20 جنوری 2021 سے ہوگا۔ اور یہ پلان سائنسی بنیادوں پر ہوگا۔’
انھوں نے مزید کہا کہ وہ اپنی طور پر مکمل کوشش کریں گے کہ اس مرض پر قابو پایا جا سکے۔
اپنی تقریر میں جو بائیڈن نے مزید کہا کہ تاریخی طور پر امریکہ اہم لمحات پر لیے گئے فیصلوں کی بنیاد پر اپنی ڈگر پر چلا ہے اور اس سلسلے میں ماضی کے رہنماؤں نے مشکل فیصلے لیے۔
‘صدر لنکن نے 1860 میں ہماری یونین کو بچایا، روزویلٹ نے 1932 میں ملک کو ایک نئی راہ دکھائی، جان کینیڈی نے 1960 میں اور پھر باراک اوباما نے 2008 میں کہا کہ ہم کر سکتے ہیں۔ ہمارا ملک ایک ایسی جد و جہد سے گزر کر اپنے مقام تک پہنچا ہے۔’
انھوں نے مزید کہا: ‘آج پوری دنیا امریکہ کو دیکھ رہی ہے اور مجھے یقین ہے کہ جب ہم اپنے بہترین کردار کو پیش کرتے ہیں تو پوری دنیا کے لیے مشعل راہ بن سکتے ہیں۔ آئیں، مل کر ایک ایسا ملک بنیں جو ہمیں یقین ہے کہ بن سکتے ہیں۔ ایک ایسا ملک جو متحد ہو، مضبوط ہو، اور صحتیاب ہو۔’
جو بائیڈن کی تقریر سے قبل ان کی ساتھی اور نو منتخب نائب صدر کملا ہیرس نے خطاب کیا جہاں انھوں نے کہا کہ جو بائیڈن لوگوں کے زخموں کو مندمل کرتے ہیں۔
چیز سینٹر میں موجود عوام سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ‘آپ نے امید کو چنا ہے، آپ نے اتحاد کو، اخلاقیات کو، سائنس کو، اور سچائی کو چنا ہے۔ آپ نے بطور امریکی صدر جو بائیڈن کو چنا ہے۔’
اپنی تقریر میں کملا ہیرس نے کہا کہ وہ اپنے بارے میں اور ان مختلف نسلوں کی خواتین جیسے سیاہ فام، ایشیائی، سفید فام، لاطینی، اور نیٹوو امریکی اور کئی ایسی دیگر خواتین کے بارے میں سوچ رہی ہیں جنھوں نے اس موقع تک پہنچنے میں مدد کی۔
‘میں اس عہدے پر فائز ہونے والی پہلی عورت ضرور ہوں، لیکن میں آخری نہیں ہوں گی۔’
واضح رہے کہ نہ صرف کملا ہیرس پہلی خاتون، بلکہ پہلی سیاہ فام اور جنوبی ایشیائی خاتون ہیں جو نائب صدر کے عہدے پر فائز ہوئی ہیں۔
تین نومبر کو ہونے والے انتخاب کے بعد پہلے روز 40 ریاستوں کے نتائج سامنے آ گئے تھے جس میں جو بائیڈن کو اس وقت صدر ٹرمپ پر معمولی برتری حاصل تھی۔ اس کے بعد دو مزید ریاستوں کے نتائج آئے جس میں مشیگن اور وسکانسن شامل تھے اور جن کی مدد سے بائیڈن کی برتری بڑھ کر 253 الیکٹورل کالج ووٹ تک پہنچ گئی۔
ہفتے کو بالآخر ریاست پینسلوینیا کی جانب سے نتیجہ کا اعلان ہوا جس کی مدد سے ریاست کے 20 ای سی ووٹ بھی جو بائیڈن کو مل گئے اور اس کی مدد سے وہ 270 کا ہندسہ عبور کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
یاد رہے کہ امریکہ میں صدارتی امیدواروں کو جیت حاصل کرنے کے لیے 538 ای سی ووٹ میں سے کم از کم 270 ووٹ حاصل کرنا لازمی ہوتا ہے۔ اس جیت کا مطلب ہے کہ وہ جنوری میں امریکہ کے 46ویں صدر کے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔
جو بائیڈن نے اس جیت کے ساتھ ایک اور تاریخ رقم کی ہے کہ وہ سب سے زیادہ ووٹ لے کر صدر بنے ہیں۔
اس سے قبل 2008 میں باراک اوباما نے چھ کروڑ نوے لاکھ ووٹ حاصل کیے تھے لیکن اس بار جو بائیڈن کو سات کروڑ چالیس لاکھ ووٹ ملے ہیں۔
شکست خوردہ صدر ٹرمپ کو بھی سات کروڑ سے زیادہ ووٹ ملے ہیں۔
بی بی سی صدارتی انتخاب کے لیے ایڈیسن روئٹرز کے اعداد و شمار کو استعمال کر رہا ہے جس کے تحت اب تک 46 ریاستوں کے نتائج سامنے آئے ہیں اور اب تک جو بائیڈن نے 279 ای سی حاصل کیے ہیں۔
چار ریاستوں کی نتائج آنا باقی ہیں جن میں ایریزونا اور جارجیا شامل ہیں اور ان دونوں میں جو بائیڈن بہت ہی کم فرق سے آگے ہیں۔
دوسری جانب الاسکا اور شمالی کیرولینا کے نتائج آنے ہیں جہاں صدر ٹرمپ کو سبقت حاصل ہے۔
سنہ 2016 میں ہونے والے انتخاب کے مقابلے میں ڈیموکریٹس کو جن ریاستوں میں شکست ہوئی تھی ان میں سے اس بار جو بائیڈن نے اب تک تین میں کامیابی حاصل کر لی ہے جن میں وسکانسن، مشیگن اور پینسیلوینیا شامل ہیں۔
اس کے علاوہ سنہ 1960 کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ امریکہ کے صدارتی انتخاب میں کسی امیدوار نے ریاست اوہایو میں کامیابی کے بغیر وائٹ ہاؤس تک رسائی حاصل کی ہے۔
اوہایو کو ایک انتہائی اہم ریاست سمجھا جاتا ہے جو عام طور پر ایک رپبلکن ریاست تصور کی جاتی ہے۔ تاہم اس نے 1964 کے بعد سے اب تک جس بھی امیدوار کی حمایت کی ہے، وہی امریکہ کا صدر منتخب ہوا ہے۔
اس ریاست کے کل 18 الیکٹورل کالج ووٹ ہیں اور اس مرتبہ حالانکہ یہ صدر ٹرمپ کے حصے میں آئی ہے لیکن مجموعی طور پر جو بائیڈن فاتح ٹھہرے ہیں۔