‘امریکی قیدیوں کی رہائی کے بغیر ایران جوہری معاہدہ مشکل’

Robert Mellie

Robert Mellie

تہران (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا سن 2015 کے ایران جوہری معاہدے کو بچانے کے لیے شاید اس وقت تک کوئی سمجھوتہ نہ کرے جب تک تہران ان چار امریکی شہریوں کو رہا نہیں کر دیتا جسے اس نے یرغمال بنارکھا ہے۔ ایران امریکا کے اس دعوے کی تردید کرتا ہے۔

ایران کے لیے امریکا کے خصوصی سفیر رابرٹ میلی نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے ساتھ بات کرتے ہوئے ایران کے قبضے میں موجود چار امریکیوں کے مسئلے پر ایک بار پھر امریکی موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ جوہری مذاکرات سے الگ ہے۔ تاہم وہ ان امریکی شہریوں کی رہائی کوجوہری معاہدے کے لیے پیش گی شرط سے ذرا اور قریب آگئے۔

رابرٹ میلی نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کواتوار کے روز دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا، “یہ دونوں الگ الگ ہیں اور ہم دونوں پر کام کر رہے ہیں۔ لیکن میں کہنا چاہوں گا کہ ایران کے ذریعہ یرغمال بنائے گئے چار بے گناہ امریکیوں کی رہائی کے بغیر جوہری معاہدہ کرنے کا تصور ہمارے لیے بہت مشکل ہے۔”

انہوں نے ویانا میں خبر رساں ایجنسی سے بات کرتے ہوئے مزید کہا، “باوجودیکہ ہم جوہری معاملے پر ایران کے ساتھ بالواسطہ بات چیت کر رہے ہیں، اسی کے ساتھ ہم اپنے یرغمال شہریوں کی رہائی کو یقینی بنانے کے لیے بھی ان کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات کر رہے ہیں۔”

خیال رہے کہ ویانا میں سن 2015 کے ایران جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے بات چیت کا سلسلہ جاری ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سن 2018 میں امریکا کو اس معاہدے سے یک طرفہ طورپر الگ کرلیا تھا۔

حالیہ برسوں کے دوران ایران کی پاسداران انقلاب فوج نے درجنوں دوہری شہریت رکھنے والے اور غیرملکی شہریوں کو بالخصوص جاسوسی اور سیکورٹی کے حوالے سے الزامات کے تحت گرفتار کررکھا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ تہران ان قیدیوں کے ذریعہ سفارتی فائدے اٹھانا چاہتا ہے۔ دوسری طرف مغربی طاقتیں ان ‘سیاسی قیدیوں’ کو رہا کرنے کے لیے تہران سے ایک عرصے سے مطالبہ کر رہی ہیں۔

تہران اس بات سے انکار کرتا رہا ہے کہ اس نے کسی کو بھی سیاسی اسباب کی بنا کر قید کر رکھا ہے۔

انٹرویو کے دوران میلی کے ساتھ 77سالہ سابق امریکی سفارت کار بیری روزین بھی موجود تھے۔ روزین ایران میں قید امریکی، برطانوی، فرانسیسی، جرمنی، آسٹریائی اور سویڈش قیدیوں کی رہائی کے مطالبے پر زور دینے کے لیے بھوک ہڑتال پر ہیں۔ روزن کا کہنا ہے کہ جب تک ان قیدیوں کو رہا نہیں کر دیا جاتا اس وقت تک جوہری معاہدہ نہیں کیا جانا چاہئے۔

روزن سن 1979-1981کے دوران ایران میں یرغمالوں کے بحران میں شامل 50 سے زائد امریکی سفارت کاروں میں سے ایک تھے۔

رابرٹ میلی نے کہا، “میں نے یرغمال بنائے گئے افراد میں سے کئی ایک کے اہل خانہ سے بات کی ہے۔ وہ مسٹر روزن کے تئیں مشکور ہیں تاہم ان لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب انہیں اپنی بھوک ہڑتال ختم کردینی چاہئے۔ اور میری بھی یہی رائے ہے کیونکہ پیغام پہنچ چکا ہے۔”

پانچ روز سے بھوک ہڑتال پر بیٹھے روزن نے کہا، “خصوصی سفیر میلی اور میرے ڈاکٹروں نیز دیگر افراد کی درخواست کے بعد میں اپنی بھوک ہڑتال ختم کر رہا ہوں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ میری اس مہم کو دوسرے لوگ آگے نہیں بڑھائیں گے۔”

خیال رہے کہ سن 2015 کے ایران جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے سلسلے میں ویانا میں ہونے والی بات چیت آٹھویں دور میں ہے۔ ایران نے امریکی حکام سے براہ راست ملاقات کرنے سے انکار کر دیا ہے جس کی وجہ سے دیگر سفارت کار دونوں کے درمیان رابطے کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

براہ راست بات چیت کا خیرمقدم کریں گے
جب امریکی سفیر رابرٹ میلی سے پوچھا گیا کہ کیا امریکا ایران سے براہ راست بات چیت کرسکتا ہے تو انہوں نے کہا، “اس حوالے سے کوئی بات ہمیں سننے کو نہیں ملی ہے، لیکن ہم اس کا خیر مقدم کریں گے۔”

امریکا کا کہنا ہے کہ ایران نے اس کے چار شہروں کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ ان میں ایرانی امریکی تاجر 50 سالہ سیامک نمازی اور ان کے والد 85 سالہ باقر شامل ہیں۔ ان دونوں کو “دشمن حکومت کے ساتھ تعاون کرنے” کا قصوروار قرار دیا گیا ہے۔ نمازی اب بھی جیل میں ہیں جب کہ ان کے والد کو طبی بنیادوں پر سن 2018 میں رہا کردیا گیا تھا اور ان کی بقیہ سزا بھی معاف کردی گئی تھی۔ گوکہ باقر جیل میں نہیں ہیں تاہم ان کے کنبے کے وکیل کا کہنا ہے کہ ان پر ایران چھوڑنے پر پابندی عائد ہے۔

نمازی خاندان کے وکیل جیرڈ جینسر کا کہنا تھا، “بائیڈن انتظامیہ کے سینیئر حکام نے بارہا کہا ہے کہ گوکہ ایرانی جوہری معاہدہ اور یرغمالوں کا معاملہ دونوں الگ الگ ہیں لیکن دونوں کے لیے متوازی بات چیت ہونی چاہئے اور صرف جوہری معاہدہ نہیں ہوسکتا، ورنہ یرغمالوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوسکے گا۔”

ایران نے جن دیگر امریکی شہریوں کو یرغمال بنا رکھا ہے ان میں ماہر ماحولیات مراد تہباز اور تاجرعماد شرگی شامل ہیں۔