امریکی ریسرچ سینٹرز نے کھلے دودھ کو مضر صحت قرار دے دیا

Milk

Milk

کراچی (جیوڈیسک) جدید تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ سپلائی چین میں حفظان صحت کا خیال نہ رکھے جانے سے کھلا دودھ مضر صحت اجزا پھیلانے کا سبب بن رہا ہے جس سے صارفین کے ساتھ خود ڈیری انڈسٹری کو بھی نقصان کا سامنا ہے۔

یونیورسٹی آف وسکونسن۔ میڈیسن ڈپارٹمنٹ آف ڈیری سائسنس اور دی بیکوک انسٹی ٹیوٹ وسکونسن امریکا کی جانب سے جاری کردہ فارم سیفٹی حقائق سینٹر کے مطابق کھلے خام دودھ میں کچھ پیتھوجنز بشمول کولی، سالمونیلا، کمپی لوبیکٹر، کرپٹو اسپوریڈیم اور لسٹریا پائے گئے۔ یہ تمام پیتھوجینز مویشیوں کی آنتوں اور فضلے میں موجود ہوتے ہیں اور دودھ دوہنے اور نکاسی آب کے غیر مناسب استعمال کے باعث یہ جراثیم کھلے عام دودھ میں شامل ہونے کا خطرہ بڑھ جاتاہے۔ یہ پیتھوجینز گیس اور آنتوں کی علامات مثلاً پتلی یا خونی پیچش، بخار، پیٹ درد، بے خوابی اور قے کی شکایات کا موجب بن سکتی ہیں، کئی شدید علامتوں میں زندگی کو بھی خطرہ لاحق ہوسکتاہے اور جلدی سوزش، ورم یا فالج جیسے امراض ہوسکتے ہیں۔

کھلے دودھ کا یہ استعمال نہ صرف دودھ بلکہ جملہ دیگران مائع دودھ سے بنی اشیا کیلیے بھی نقصان دہ ثابت ہوتاہے جن میں وہی خام کھلا دودھ استعمال کیا جاتاہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کھلے دودھ کے باقاعدہ استعمال کے بے تحاشہ نقصانات کو مدنظر رکھتے ہوئے دودھ کی یہ شکل عوامی صحت کیلیے سب سے بڑا خطرہ بن کر سامنے آگئی ہے، بالخصوص پاکستان جیسے ملک میں اس وقت پاکستان میں کھلا دودھ استعمال کرنے والوں کا تناسب 90 فیصد سے زائد بنتاہے۔ مقامی ڈیری فارمز کے ذریعے پیدا فراہم کردہ کھلے دودھ میں کسی بھی قسم کی ڈائیٹ اور ہائجن پروگرام کو مدنظر نہیں رکھا جاتا اور نہ ہی دودھ فراہم کرنے کی معیاری جانچ کے تصورات کو اہمیت دی جاتی ہے۔

مقامی ڈیری کسان کھلے برتنوں میں دودھ کو جمع کرتے ہیںاور پھر اس دودھ کو انتہائی بے احتیاطی اور نامناسب گاڑی کے ذریعے براہ راست صارفین، دودھ فروش دکانداروں کو پہنچاتے ہیں جس کے باعث اس دودھ میں لاکھوں تعداد میں جراثیم (بیکٹریا) موجود ہوتے ہیں۔ یہ دودھ اپنے درجہ حرارت سے خاصہ زیادہ ہوتاہے یعنی دودھ دوھنے کے بعد صرف30 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ اور مزید برآں دودھ کی پیتل کی بالٹیاں سفرکے دوران دودھ کو دھات کے اثرات سے آلودہ کرتی ہیں۔ مقامی دودھ میں نقصادہ دہ کیمکلز اور برف کے ذرات ہوتے ہیں۔

تھوک فروش دودھ کی دکانوں میں کھلے برتنوں اور گھر میں بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش جیسے ممالک میں دودھ کو ابالنے کی رسم جاری و ساری ہے۔ جس میں وہ کئی منٹ تک دودھ کو ابالتے ہیں اور اس کا قطعاً خیال نہیں رکھتے کہ وہ قبول کردہ درجہ حرارت کی نازک حرارت کا لحاظ کرتے ہوئے نازک غذائی اجزا کا نتیجہ بھگتتے ہیں۔ اس کی وجہ سے دودھ کے پروٹین پر مبنی اجزا پر نمایاں منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں دودھ کو زیادہ دیر تک ابالنے کے دوران دودھ کے کچھ حساس اجزا یعنی پانی میں حل پزیر وٹامنز ضائع ہوجاتے ہیں یا اپنی صورت تبدیل کرلیتے ہیں۔ دودھ ابالنے کے اس عمل کے دوران وٹامن B1 (تھیامن) کے نمایاں نقصانات تقریباً60 فیصد رپورٹ کیے گئے ہیں۔

دودھ ابالنے کے عمل کے دوران لیکٹوز بھی ایک اور ردعمل کا شکار ہوا ہے جسے ہم آئیسومریزیشن کہتے ہیں جو جسم میں پانی کی کمی کے باعث حدت ڈی گریزیشن کے باعث ہوتاہے جس کامطلب یہ ہوا کہ دودھ کے اس قیمتی مجز کو ہم تباہ و برباد کردیتے ہیں۔ آلودہ دودھ کی نازک حرارت کے علاج کے دوران سارے وٹامن B12 تباہ و برباد ہوئے جبکہ وٹامن B6 کا تناسب تقریباً60 فیصد ایسکاربک ایسڈ کا 70فیصد اور فولیٹ کا30 فیصد رہا۔ بند دودھ کی صحت مند اور تازہ ترین شکلیں جیسے قبل ازیں بند دودھ جراثیم کو تباہ کرتاہے جوکہ بیماری کا سبب بننے والے جراثیم کو تباہ کرتے ہیں اور دودھ کے فطری ذائقے کو زیادہ عرصے تک زندگی دینے کے ساتھ دودھ کی مکمل غذائیت کو برقرار رکھتے ہیں۔