واشنگٹن (جیوڈیسک) ایک امریکی اہل کار نے بتایا ہے کہ امریکہ سعودی عرب کو چند جدید ہتھیاروں کی مجوزہ فروخت روک دے گا، جس کی وجہ یمنی خانہ جنگی میں سعودی فوجی سرگرمیوں پر تشویش بتائی جاتی ہے، جس کے باعث ہزاروں شہریوں کی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔
اہل کار نے کہا ہے کہ صدر براک اوباما کی انتظامیہ نے سعودی عرب کو فضا سے ہدف بنانے والے جدید ترین اسلحے کی فروخت منسوخ کر دی ہے، جو امریکہ کا ایک کلیدی اتحادی ہے۔
اہل کار نے کہا ہے کہ ”یہ اس تشویش کا براہ راست اظہار ہے جو ہمیں سعودی عرب سے متعلق ہے، جس کی وجہ سے شہری ہلاکتیں واقع ہوئی ہیں”۔
جدید ترین ہتھیاروں کی فروخت کی منسوخی کے علاوہ، سعودی فضائی فوج کے اہل کاروں کی نشانہ بازی کی مہارت میں بہتری لانے کے لیے ضروری تربیت کا بندوبست کیا جائے گا، جو معاملہ اوباما انتظامیہ کی مستقل پریشانی کا باعث بنا رہا ہے۔
اس فیصلے کے نتیجے میں امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات میں مزید بگاڑ آسکتا ہے، ایسے میں جب منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ امریکی حکومت کے انتظامی شعبے کا کنٹرول سنبھالنے والے ہیں۔
اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق نے اگست میں کہا تھا کہ مارچ 2015ء سے اب تک یمن میں سعودی قیادت والا اتحاد 3800 شہریوں میں سے تقریباً 60 فی صد کی ہلاکت کا ذمہ دار رہا ہے۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے چند دیگر اداروں نے امریکہ کی جانب سے سعودی عرب کی جنگی حرکات کی حمایت جاری رکھنے، اُسے ہتھیاروں کی فروخت اور سعودی قیادت والے اتحاد کے لڑاکا جیٹ طیاروں کو ایندھن کی فراہمی پر امریکہ پر نکتہ چینی کی ہے۔
حقوق انسانی کے چند گروپوں نے یہ بھی کہا ہے کہ سعودی قیادت والا اتحاد شفا خانوں، کارخانوں، مارکیٹوں اور اسکولوں پر حملے جاری رکھے ہوئے ہے، جو اقدام جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔