واشنگٹن (جیوڈیسک) امریکی سینیٹ نے ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے نئی اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی دے دی۔
ادھر ایرانی صدر حسن روحانی نے جمعے کو قوم سے خطاب میں کہاکہ عالمی طاقتیں واضح طور پر سمجھ چکی ہیں کہ جوہری پروگرام پر ایران سے بات کرنے کا واحد راستہ دھمکیوں یا پابندیوں کا نہیں بلکہ عزت و احترام ہے۔
جمعے کو عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی سینیٹ نے متفقہ طور پر قرارداد منظور کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایران کا ایٹمی پروگرام کے حوالے سے عالمی طاقتوں کے ساتھ معاہدہ ہو جائے تو اس معاہدے کی شرائط کی خلاف ورزی کی صورت میں ایران پر مزید اقتصادی پابندیاں عائد کر دی جانی چاہئیں۔
رپبلکن سینیٹر مارک کرک کی طرف سے بجٹ سیشن کے دوران پیش کی جانے کی قرارداد کے حق میں 100اراکین نے رائے دی جبکہ سینیٹ کے کسی بھی رکن نے اس قرارداد کی مخالفت نہیں کی۔ ادھر ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف نے سوئٹزر لینڈ میں اپنے امریکی ہم منصب جان کیری کے ساتھ 90 منٹ کی ملاقات کے بعد کہا کہ مذاکرات بہت ہی مشکل ہوگئے ہیں اور یہ اپنے آغاز پر بھی بہت مشکل تھے اور اب بھی ایسے ہیں ہیں۔ ایرانی وفد کے ایک اور رکن نے کہا کہ مذاکرات کو کامیاب بنانا فریقین کی رضامندی پر منحصر ہوتا ہے۔
جواد ظریف نے کہا کہ یمنی تنازع کی وجہ سے ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان مذاکرات متاثر نہیں ہوں گے، جوہری مذاکرات میں پوری کوشش کی جارہی ہے کہ کسی حتمی معاہدے تک پہنچا جائے۔ انھوں نے کہا کہ جمعے کے دن مذاکرات میں یمن کے موضوع پر بھی بات ہوئی۔
تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ مذاکرات کا مرکزی موضوع ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایران کو یمن پر سعودی فضائی کارروائیوں پر شدید تحفظات ہیں تاہم لوزان میں جاری مذاکرات کا واحد موضوع ایرانی جوہری معاملہ ہے۔ ادھر ایرانی صدر حسن روحانی نے مذاکرات میں حصہ لینے والی تمام 6 عالمی طاقتوں کے سربراہوں کو خط لکھا ہے جبکہ برطانیہ، فرانس، روس اور چین کے سربراہان سے ٹیلی فون پر بات کی ہے۔
ایرانی میڈیا کے مطابق صدر حسن روحانی کے ٹویٹر اکاؤنٹ پر بتایا گیا کہ انھوں نے عالمی رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ اس منفرد موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے ایران پر عائد پابندیوں کے خاتمے کی اہمیت پر بھی بات کی ہے۔ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے ترجمان کے مطابق وزیراعظم کیمرون ایرانی صدر سے متفق ہیں کہ معاہدہ ممکن ہے۔
تاہم وزیراعظم نے زور دیا کہ ایران کو دنیا کو یہ دکھانے لیے مزید اقدام کرنا ہوں گے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف اور صرف پرامن مقصد کے لیے ہے۔ ایک اعلیٰ برطانوی سفارت کار کے مطابق ٹیلی فون کال بامعنی ہے جس سے ظاہر ہوتا کہ فریقین معاہدے کرنے میں سنجیدہ ہیں۔