امریکی حراستی مراکز کی حالت زار پر تشویش، مگر ہوگا کیا؟

Refugees

Refugees

امریکا (جیوڈیسک) اقوام متحدہ میں انسانی حقوق سے متعلق ادارے کی سربراہ میشل باچلیٹ نے امریکی حراستی مراکز میں مہاجرین اور پناہ گزینوں کو درپیش حالات پر گہری تشویش ظاہر کی ہے۔ اس سے امیگریشن کے حوالے سے امریکی پالیسیوں پر دبا بڑھے گا۔

اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے مطابق بارڈر ایجنٹس کی طرف سے روکے جانے والے مہاجر بچوں کو نہ تو ان کے والدین سے جدا کیا جانا چاہیے اور نہ ہی حراستی مراکز میں رکھا جانا چاہیے۔ میشل باچلیٹ کے بقول حراستی مرکز میں رکھا جانا بالغ افراد کے لیے بھی ممنوع ہونا چاہیے۔ باچلیٹ نے کہا کہ بالغ پناہ گزینوں و مہاجرین کو آزادی کے حق سے محروم رکھنا آخری قدم ہونا چاہیے۔ اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے جنیوا میں آج منگل نو جولائی کو یہ بیان دیتے ہوئے امریکی حکام سے اپیل کی ہے کہ اس معاملے کے حل کے لیے حراست کے متبادل راستے اختیار کیے جائیں۔

اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کی ایک ترجمان روینا شامدسانی نے بتایا ہے کہ میشل باچلیٹ نے امریکی حراستی مراکز پر کھل کر تنقید، امریکی محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی کے انسپکر جنرل کی اس تنبیہ کے بعد کی، جس میں انہوں نے اپنے ملک میں موجود حراستی مراکز کی خطرناک حالت پر تشویش ظاہر کی تھی۔

باچلیٹ نے اپنے بیان میں کہا کہ مہاجرین و پناہ گزین تحفظ اور عزت کے تعاقب میں اپنے بچوں کے ہمراہ خطرناک سفر پر نکلتے ہیں اور جب انہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی منزل پر پہنچ گئے ہیں تو اس وقت انہیں ان کے اپنوں سے جبرا جدا کر دیا جاتا ہے اور سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے: ”یہ بالکل نہیں ہونا چاہیے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اتوار سات جولائی کو ایک بیان میں کہا تھا کہ امریکا کا رخ کرنے والے مہاجرین اور پناہ گزین، انتہائی غربت سے آ رہے ہوتے ہیں اور اسی لیے امریکی حراستی حراستی مراکز ان کے لیے ایک بہتر متبادل ثابت ہوتا ہے، جس سے وہ خوش ہیں۔ انہوں نے ملکی بارڈر پیٹرول اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تعریف بھی کی۔

یہ امر اہم ہے کہ پچھلے ہفتے جاری کردہ ایک رپورٹ میں خبردار کیا گیا تھا کہ امریکی حراستی مراکز گنجائش سے زیادہ بھر چکے ہیں۔ انسپکٹرز نے یہ بھی بتایا تھا کہ وہاں بچوں اور بالغوں کو بہت سی بنیادی سہولیات تک میسر نہیں۔