امریکیوں کے ہاتھوں امریکیوں کا قتل

Nine Eleven

Nine Eleven

تحریر: حنظلہ عماد
گیارہ ستمبر 2001ء یا نائن الیون تاریخ عالم میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتاہے۔ اس دن جب امریکی شہر نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے دوجہاز ٹکرائے گئے تواس پرامریکی حکام سیخ پاہوگئے۔ ان کے سلامتی اور طاقت کے زعم کو ٹھیس پہنچی ۔چنانچہ اس بات کافوری اعلان کیاگیاکہ امریکیوں کو مستقبل میں ایسے حملوں اور ہلاکتوں سے بچانے کے لیے دشمنوں کو ان کے علاقوں میں ہی ماردیاجائے گا۔ اس نام نہاد مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا اور لاکھوں معصوم افغانوں کو خون میں نہلا دیا۔ یہیں پر بس نہ کیا بلکہ 2003ء میں عراق پرہلہ بولا اور وہاں بھی لاکھوں عراقیوں کو موت کی نیند سلادیا۔

امریکہ نے اپنے ملک کے باشندوں اورساری دنیا کے سامنے ان حملوں کی جووجوہات بیان کیں ان میں بڑی وجہ امریکی شہریوں کاتحفظ تھا۔ امریکی حکومت کے بقول اس سے قبل کہ یہ لوگ یعنی مسلمان جنہیں دہشت گرد کہاگیا،امریکیوں کے لیے خطرہ بنیںانہیں ختم کردینا چاہیے۔ چونکہ دفاع امریکیوں کابنیادی حق ہے۔ اس لیے دفاع کے اس پیدائشی حق کو استعمال کرتے ہوئے امریکہ نے لاکھوں بے گناہ انسان موت کے گھاٹ اتاردیے۔

یہ بحث ایک طرف کہ امریکہ کو اس جنگ میں بھی فتح نہ مل سکی بلکہ شکست اس کامقدر ٹھہری ۔ افغانستان میں بھی اسے پسپائی اختیارکرناپڑی اوراس کے جرنیلوں نے تسلیم کیا کہ وہ افغانستان میں جنگ ہار چکے ہیں لیکن جن امریکیوں کے دفاع کے لیے وہ افغانستان یا عراق میں اربوں ڈالر جھونک چکے تھے، وہ امریکی اپنے ہی دیس میں غیرمحفوظ ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ امریکیوں کے لیے ان کے دیس میں خطرہ کوئی مسلمان ”دہشت گرد”نہیں بلکہ امریکی پولیس ہے۔

United States

United States

اعداد وشمار کی دنیا میں اگر نظر دوڑائیں تو امریکہ کے کئی موقر خبررساں ادارے اس بات کا واویلا کرتے نظر آتے ہیں کہ امریکیوں کے لیے سب سے زیادہ خطرہ امریکی پولیس،اس کے بعد دائیں بازو کے انتہاپسند امریکی یعنی عیسائی شدت پسند اور تیسرے نمبر پر وہ مسلمان جنہیں دہشت گرد کہا گیاہے۔ واضح رہے کہ یہ مسلمان بھی امریکی ہی ہیں،ان میں بھی غیرامریکی بہت کم یا نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یعنی امریکہ جس نے نائن الیون کے بعد چودہ سال امریکیوں کے دفاع میں پوری دنیا میں جنگ کے شعلے بھڑکائے وہ امریکہ خود اس وقت خطرے کی زد میں ہے اور یہ خطرہ اندرونی ہے۔

امریکیوں کو خطرہ اپنے ملک کی پولیس یا دیگر امریکیوں سے کیوں ہے۔ اس کی متعدد وجوہات ہیں۔ ایک بڑی وجہ امریکہ میں اسلحہ کاعام ہوناہے۔ ریاست متحدہ ہائے امریکہ میں کسی شخص کے اسلحہ رکھنے پرکوئی پابندی نہیں ہے جس کے باعث غصے یاکسی دوسری وجہ سے امریکیوں کے ہاتھوں اپنے ہی ہم وطن افراد کاقتل ہوجاناآئے دن اخبارات کی زینت بنتاہے۔ چونکہ ہر شخص اسلحہ رکھ سکتا ہے،اس لیے پولیس کو بھی بہت محتاط رہناہوتاہے۔ چنانچہ جرائم پیشہ افراد یاملزموں کو محض شک کی بنیاد پرکہ وہ پولیس پرحملہ کردیں گے،ان کو گولی مار دی جاتی ہے۔چنانچہ امریکیوں کے لیے سب سے بڑاخطرہ اس وقت امریکی پولیس ہی ہے۔ سال رواں 2015ء کے ابتدائی چھ ماہ میں ہی امریکی پولیس 600 افراد کو قتل کر چکی ہے جبکہ صرف مارچ میں 100 افراد کو قتل کیاگیا۔

گارڈین کی رپورٹ کے مطابق یکم جنوری 2015ء سے یکم جولائی 2015ء تک امریکی پولیس 587ہم وطنوں کوموت کے گھاٹ اتارچکی ہے۔ ان میں سے 478 افراد کو گولی مار کرہلاک کیاگیا۔31لوگوں کو بجلی کے جھٹکوں ،16 لوگوں کو پولیس کی گاڑیوں سے ٹکرمارنے کے بعد اور 19 افراد کو پولیس کی تفتیش کے دوران اپنی جان سے ہاتھ دھوناپڑے۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق 9اگست 2014ء سے 10 اگست 2015ء کے درمیان امریکی پولیس 1083 افراد کو قتل کرچکی ہے۔ یعنی روزانہ تین افراد اوسطاً۔ ان میں 9اگست 2014ء کو ہلاک ہونے والا ریاست میسوری کا باشندہ مائیکل براؤن بھی شامل ہے۔

American Police

American Police

امریکی پولیس کے ہاتھوں قتل ہونے والے افراد میں سب سے زیادہ کیلی فورنیا جہاں 176 امریکی اپنے ہی وطن کے محافظوں کے ہاتھوں ابدی نیند جاسوئے جبکہ ٹیکساس میں 100 ،نیویارک میں 13 اور دیگر 5 شہروں میں 10 سے زائد افراد کوقتل کیاگیا۔ ٹائمز میگزین کی رپورٹ کے مطابق ناروے کی پولیس نے 9سال میں اتنے افراد کوقتل نہیں کیا جتنے امریکی پولیس ایک دن میں کردیتی ہے۔

امریکی پولیس کے ہاتھوں ہونے والی ہلاکتوں کی ایک بڑی وجہ نسلی تعصب ہے۔ امریکہ جو خود کوروشن خیال اورسیکولر ملک گردانتاہے ،وہاں بھی نسلی تعصب عروج پر ہے۔ اگرچہ سیاہ فام صدر اوباماوائٹ ہاؤس میں موجود ہے لیکن اس کے باوجود گوروں کے دل میں سیاہ فام لوگوں کے لیے نفرت اورحقارت ختم نہیں ہوسکی ہے۔ چنانچہ اس کا اظہار حالیہ بالٹی مورمیں فسادات میں ہواکہ جب پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام نوجوان کی ہلاکت پر سیاہ فام امریکی سراپا احتجاج بنے اور اپنے ساتھ ہونے والے نسلی تعصب کو بیان کرناشروع کیا چنانچہ بالٹی مور میں شدید فسادات ہوئے اورکئی جانیں اس کی نذرہوگئیں۔ الغرض سفیداور سیاہ فام امریکیوں کے باہمی حملے اورقتل وغارت انہیں غیرمحفوظ بناتی ہے۔

سفیدفام انتہاپسندوں کی طرف سے ہونے والے حملوں میں بھی امریکیوں کی ایک بڑی تعداد محض2015ء میں بھی اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھی ہے۔ ان لوگوں کی طرف سے کیے جانے و الے 19حملوں میں اب تک 48 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔جس دہشت گردی کے نام پر امریکہ نے ساری دنیاکے مسلمانوں پرظلم ڈھائے اس کے نتیجے میں 26امریکی مارے گئے ہیں۔ یہ بھی دہشت گردی کے وہ واقعات ہیں جن میں امریکی ہی ملوث تھے لیکن ان کو مسلمانوں سے منسوب کردیاگیا۔

Dark Skinned

Dark Skinned

سفید فام انتہاپسند دوطرح کے ہیں۔ ایک وہ جو نسلی انتہاپسند ہیں کہ جو سیاہ فام لوگوں کو کسی صورت بھی برداشت نہیں کرتے اور اس مقصدکے لیے انہیں قتل تک کر دیتے ہیں۔جبکہ دوسرے عیسائی انتہاپسند ہیں۔ عیسائیوں کی انتہاپسندی کواگرچہ کبھی میڈیامیں ذکر نہیں کی گئی لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ امریکہ میں 11ایسی بڑی تنظیمیں کام کر رہی ہیں جولوگوں کو زبردستی عیسائی بناتی ہیں اور عیسائیت کے نام پرلوگوں پرظلم وستم ڈھاتی ہیں ۔ دیگر کئی چھوٹے گروہ اس کے علاوہ ہیں۔

عالمی میڈیا میں انتہاپسندی کومحض مسلمانوں سے جوڑا جاتاہے لیکن عیسائیوں اوریہودیوں کی انتہاپسندی جو کسی صورت بھی کم خطرناک نہیں ہے،اس کاذکر نہیں کیا جاتا جبکہ یہ لوگ اپنے ہی ہم وطنوں کوبے دردی سے قتل بھی کر رہے ہیں اوران پر دیگرظلم وستم بھی ڈھارہے ہیں۔ ایک اوربات کہ حکومتی سطح پریوں پولیس یاانتہا پسندوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے افراد کا ریکارڈ جمع کرنے کاکوئی انتظام نہیں ہے۔ بلکہ مذکورہ بالا تمام اعداد وشمار مختلف نجی اداروں یاخبررساں ایجنسیوں کی جانب سے جمع کیے گئے ہیں۔اسی طرح ایک ادارے ”بیوروآف لیبر سٹیٹسٹکس” کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق محض جون میں71 امریکیوں کوقتل کیاگیاہے ،5خواتین اس کے علاوہ ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق 2003ء سے 2011ء تک سالانہ اوسطاً 920 امریکیوں کوقتل کیا گیاہے۔

Murder

Murder

ایک بات واضح ہے کہ یہ تمام قتل یا تو پولیس کی طرف سے ہوئے یا انتہا پسندوں کی طرف سے۔ جرائم پیشہ افراد کی طرف سے ہونے والے قتل اس رپورٹ میں شامل نہیں ہیں۔ چنانچہ امریکی حکومت کو چاہیے کہ جن امریکیوں کے دفاع کے لیے وہ ساری دنیا میں ”پنگے” لے رہاہے، ان میں باہمی مؤدّت کوفروغ دے کہ وہ خود کسی دشمن سے زیادہ اپنے لیے خطرہ ہیں۔اگرصورتحال یہی رہی تو امریکہ کو ختم ہونے کے لیے کسی بیرونی دشمن کی حاجت نہ رہے گی بلکہ امریکی خود ہی آپس میں ایک دوسرے کو مارڈالیں گے۔

تحریر: حنظلہ عماد