تحریر : طارق حسین بٹ شان پاکستان بھی کیسا ملک ہے جس کے ساتھ امریکہ نے ہمیشہ دو رخی کا مظاہرہ کیا ہے۔اسے اس کی بے شمار قربانیوں کے باوجود امریکہ نے اسے کبھی بھی ایک مخلص دوست کی حیثیت نہیں دی شائد کشکول پکڑنے والی قومیں دوستی کے جوہر سے دور رکھی جاتی ہیں ۔ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے آغاز سے ہی مسلم دنیا کے خلاف تعصب کا شکار تھے۔ان کا خیال تھا کہ دھشت گردی کی نرسری اسلامی دنیا کی عطا کردہ ہے لہذا وہ مسلم ممالک کو شک کی نظر سے دیکھتے تھے۔سات اسلامی ممالک کے شہریوں کی امریکہ میں داخلے کی پابندی بھی اسی کا شاخسانہ تھا لیکن اس کو کیا کہیے گا کہ جب وہ اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر نکلے تو انھوں نے مسلمانوں کے دل سعودی عرب کو اپنا پہلا تخاطب بنانے کا فیصلہ کیا۔یہ ایک بڑا ہی انوکھا اور منفرد فیصلہ تھا کیونکہ جھنیں وہ دھشت گردی کا گڑھ کہہ رہے تھے ا ب انہی کو امن کا پیغامبر کہہ کر مخاطب کر رہے تھے کیونکہ اب مفادات کو تقاضہ بدل چکا تھا ۔حیران کن امر یہ ہے کہ وہ انھیں یقین دہانی بھی کروا رہے تھے کہ امریکہ اسلام کے خلاف نہیں بلکہ ان دھشت گردوں کے خلاف ہے جھنوں نے انسانیت کے اعلی مذہب کے اجلے چہرے کو اپنی دھشت گردانہ کاروائیوں سے داغدادر کر دیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ دنیا کی ساری دھشت گردانہ کاروائیوں کا نشانہ اسلامی دنیا ہے جس سے پوری اسلامی دنیا کا چہرہ اور جسم لہو لہان ہے۔ہمیں اس صورتِ حا ل سے اسلامی دنیا کو بچانا ہے اور انھیں امن کی جانب واپس لے کر آنا ہے۔سعودی عرب میں میرے پہلے سرکاری دورے کا مقصد بھی یہی ہے کہ میں اپنے دوستوں کو باور کروا سکوں کے امریکہ اپنے پرانے دوستوں کے ساتھ کھڑا ہے اور انھیں کسی صورت میں کسی کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑسکتا ۔ سعودی عرب کے پڑوسی ملک یمن میں خانہ جنگی جاری ہے،شام میں آگ اور خون کا کھیل جاری ہے،عراق میں معصوم جانوں سے کھیلا جا رہا ہے،لیبیا میںقتل و غارت گری اپنے عروج پر ہے، الجزائر میں شدت پسندی کسی کو خاطرمیں نہیں لا رہی، سوڈان میں کسی کا جان و مال محفوظ نہیں ہے ،پاکستان میں داعش اورٹی ٹی پی کی کاروائیوں سے ہزاروں افراد اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں جبکہ افغانستان میں خود د کش حملے روزمرہ کا معمول بنے ہوئے ہیں۔ یہ سب کچھ اس خطے مں ہو رہا ہے جس کا پاکستان ایک انتہائی اہم ملک ہے ۔پاکستان پہلا اسلامی ملک ہے جو ایٹمی قوت کا حامل ہے۔ایٹمی قوت ہونا غیر معمولی بات ہے اور پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ دنیا کی چھٹی ایٹمی طاقت ہے۔جسے امریکہ سمیت ساری دنیا تسلیم کرتی ہے لہذا اس طرح کی اوچھی حرکتوں سے اس کی اہمیت کو کم نہیں کیاجا سکتا ۔ ٢٨ مئی ١٩٩٨ کو میاں محمد نواز شریف نے ایٹمی دھماکہ کر کے سب کو حیران کر دیاتھا۔یہ الگ بات کہ ایٹمی توانائی کے حصول کا آغاز ذولفقار علی بھٹو نے کیا تھا اور انھیں ہی اسلامی بم کے باپ کا لقب بھی دیا جا تا ہے۔
ذولفقار علی بھٹو بجا طور پر اس لقب کا استحقاق رکھتے ہیں کیونکہ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کے جنون نے ہی ان کی زندگی ان سے چھینی تھی۔وگرنہ اگر وہ اس وقت امریکہ کی بات مان کر ایٹمی توانائی کا پروگرام روک دیتے تونہ انھیں اقتدار سے دستبردار ہونا پڑتا اور نہ ہی انھیں جھوٹے مقدمہ میں سزائے موت سنائی جاتی۔یہ اسی ایٹمی قوت کے حصول کے شاخسانے تھے کہ قوم کو ذولفقار علی بھٹو جیسے قائد کی قربانی دینی پڑی۔یہ قربانی کوئی معمولی قربانی نہیں تھی کیونکہ ذولفقار علی بھٹو جیسے سیاستدان روز روز پیدا نہیں ہوتے ۔،۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ریاض میں پاکستان کی اہمیت کو دانستہ کم کرنے کی کوشش کی۔میاں محمد نواز شریف کو مناسب پروٹو کول نہ دیا گیا حالانکہ واحد اسلامی ایٹمی قوت ہونے کی وجہ سے پاکستان کو سب سے زیادہ اہمیت ملنی چائیے تھی۔پاکستان کے ساتھ ایسا پہلی دفعہ نہیں ہوا بلکہ امریکہ کا یہ معمول رہا ہے کہ وہ پاکستان کو استعمال کرنے کے بعد اسے بھول جاتا ہے۔
کولڈ وار کے زمانے میں پاکستان کو سیٹو اور سینٹو میں شمولیت دلوائی گئی تا کہ پاکستان سوشلزم کو روکنے کیلئے اپنا اثرو رسوخ ستعمال کرے۔اس حرکت سے پاکستان روسی دشمنی کا نشانہ بنا اور اسے روسی دشمنی کے نتائج بنگلہ دیش کے قیام کی صورت میں بھگتنے پڑے ۔امریکہ نے ابتلاو آزمائش کے ان لمحوں میں بالکل چپ سادھ لی اور ہمیں روس بھارت گٹھ جوڑھ کے سامنے بے یا رو مدد گار چھوڑ دیا۔١٩٦٢ میں چین بھارت جنگ میں چین کے خلاف امریکی ارشادات کے سامنے سرِ تسلیم خم نہ کرنے کی پاداش میں ١٩٦٥ اور ١٩٧١۔میں پاکستان کو امریکی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا جبکہ انہی سالوں میں پاکستان اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا تھا اور امریکی امداد اس کیلئے انتہائی ضروری تھی۔ایٹم بم کی تیاری کی پاداش میں پاکستان کو١٩٧٥ اور ر ١٩٧٩ میں ایک دفع پھر نئی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن افغانستان پر روسی جارحیت کے باعث امریکہ نے ١٩٨٣ میں یہ پابندیاں اٹھا لیں کیونکہ اس وقت پاکستان کی اشد ضرورت آن پڑی تھی۔یہ پابندیاں ١٩٩٠ میں دوبارہ لاگو کر دی گئیں کیونکہ افغانستان کا جہاد ختم ہو چکا تھا، سویت یونین بکھر چکا تھا اور امریکہ اب اس کرہِ ارض کی اکلوتی سپر پاور تھا لہذا امریکہ نے پاکستان کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا کیونکہ اب وہ تنِ تنہا سب سے نپٹ لینے کی تیاری کر رہا تھا ۔امریکہ کو پاکستان اس وقت یاد آتا ہے جب وہ کسی مشکل میں پڑتا ہے۔٢٨مئی ١٩٩٨ کوایٹمی دھماکہ کرنے کے بعد پریسلر ترمیم کے ذریعے پاکستان کو ایک دفعہ پھر پابندیوں کا سامنا کرنا پڑاکیونکہ اب افغانستان کا محاذ بالکل ٹھنڈا ہو چکاا تھا لیکن القاعدہ کے ہاتھو ں ٹون ٹاور پر حملے کے بعد ایک نئی دنیا ظہور پذیر ہوئی تو ایک دفعہ پھر پاکستان کی اہمیت دو چند ہو گئی۔اب امریکہ کو پاکستان ایک دفعہ پھر مخلص دوست نظر آنے لگا ۔پاکستان پر اس وقت جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی لہذا امریکہ نے افغانستان پر چڑھائی کرنے سے قبل جنرل پرویز مشرف سے مکمل حمائت کی درخواست کی۔جنرل پرویز مشرف نے ایک ہی فون کال پر سارے امریکی مطالبات من و عن قبول کر لئے۔ دوستی کا ایک نیا دور دوبارہ شروع ہوا جس کے بعد ستمبر ٢٠٠١میں لگائی گئی پابندیاں اٹھا لی گئیں اور پاکستان پر ڈالروں کی بارش ہونے لگی۔اب پاکستان دھشت گردی کی جنگ میں امریکہ کا فرنٹ لائن ساتھی تھا جس میں اسے بے شمار مالی و جانی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ۔جب سب کچھ حسبِ منشا طے پا گیا توایک دفعہ پھر دھیرے دھرے پاکستان کو کھڈے لائن لگا دیا گیا۔
اس پر جھوٹا الزام لگا یا گیا کہ وہ امریکہ کے ساتھ کھلواڑ کر رہا ہے اور در پردہ طالبان کی مدد کر رہا ہے۔کشمیر کی جنگِ آزادی کو بھارت نے دھشت گردی کے ساتھ نتھی کر کے امریکہ اور پاکستان میں غلط فہمیاں پیدا کیں۔ بھارتی موقف یہ تھا کہ کشمیر کی بے چینی میں آئی ایس آئی، مذہبی تنظیمیں اور طالبان ملوث ہیں۔افغان صدر حامد کر زئی اور اشرف غنی بھارتی سازشوں کا شکار ہو کر پاکستان کے خلاف زہر اگلنے لگے۔بلوچسیان،فاٹا اور کراچی ان کی سا زشوں کے نئے مراکز تجویز ہوئے اور دھشت گردی کے آسیب نے پورے پاکستان کو اپنے شکنجے میں کس لیا۔دھماکے اور خود کش حملے پاکستان کی پہچان بنے اور ہزاروں پاکستان دھشت گردی کی بھڑکائی ہوئی اس آگ کا ایندھن بنے جو امریکہ اپنے ساتھ افغانستان لایا تھا ۔ امریکہ کو علم تھا کہ افغانستان کا معرکہ پاکستان کی معاونت اور سر پرستی کے بغیر کبھی بھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتا تھا لیکن اس کا صلہ کیا دیا گیا؟سعودی عرب کے شہر ریاض میں جس طرح پاکستان کو نظر انداز کیا گیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔امریکی صدر ڈولنڈٹرمپ نے یہ سب کچھ جان بوجھ کر کیا ہے کیونکہ امریکی محبت کا محور آج کل بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی ہیںاور پاکستان کو غیر اہم بنا کر پیش کرنا در اصل نریندر مودی کو خوش کرنے کی ایک کوشش ہے۔سی پیک کے بعد ہمارے خطے نے جس طرح انگڑائی لی ہے اس نے امریکہ اور اس کے حواری بھارت کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔وہ سی پیک کو کسی بھی حالت میں کامیابی سے ہمکنار ہونا نہیں دینا چاہتے کیونکہ اس طرح پاکستان ترقی کی نئی منازل طے کرلے گا۔امریکہ اور پاکستان ایک دفعہ پھر دوری پر کھڑے ہیں کیونکہ اب امریکی بانہیں بھارت کے لئے کھلی ہوئی ہیں،۔
Tariq Hussain Butt Shan
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال