ممبئی (جیوڈیسک) بالی وڈ کی اداکارہ کنگنا رناوت کا تعلق ریاست ہماچل پردیش کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے ہے جہاں ان کے پڑدادا رکن اسمبلی تھے، دادا آئی ایس افسر تھے، والد تاجر اور ماں سکول کی ٹیچر تھیں۔ میڈیکل کی پڑھائی ترک کرنے کے بعد وہ پہلے دہلی میں ماڈل بنیں اور پھر تھیٹر کرتے کرتے ممبئی آئیں اور ایک ایکٹنگ کورس میں داخلہ لیا۔
میڈیکل کی تعلیم ترک کرنے پر ان کی گھر والوں سے بات چیت تک بند ہو گئی لیکن سنہ 2007 میں جب ان کی تیسری فلم ’لائف ان اے میٹرو‘ ریلیز ہوئی تو گھر والوں سے ان کی پھر سے صلح ہوئی اور آج کنگنا کی منیجر ان کی سگی بہن رنگولی ہیں۔
میٹرو فلم ملنے سے پہلے کنگنا کا گزارا بہت مشکل سے ہوتا تھا لیکن وقت کے ساتھ انھوں نے اپنی محنت اور لگن سے جیسے کایا ہی پلٹ دی ہو اور آج وہ ایک منفرد اداکارہ کی ساکھ بنا چکی ہیں۔
سنہ 2007 میں ’لائف ان اے میٹرو‘ میں کنگنا کے ساتھ کام کرنے والے اداکار عرفان خان نے بھی ایک بار کہا تھا: ’کنگنا اب ہیرو ہو گئی ہیں، ان کے ساتھ کام کرنے کے لیے اب مجھے ہیروئین بننا ہوگا۔‘
ایک وقت وہ بھی تھا جب اداکار آدتیہ پنچول کے ساتھ ان کے افیئر کی خبریں کافی گرم رہتی تھیں اور آئے دن اس بات کا تذکرہ رہتا ہے کہ آدیتہ انھیں مارتے پیٹتے ہیں۔ اسی دوران ان کی بہن رنگولی پر ایک سر پھرے عاشق نے تیزاب پھینک دیا تھا اور اس طرح کے ہونے والے مختلف واقعات سے فطری طور کنگنا بھی بہت پریشان ہوئی تھیں۔
بالی وڈ سے وابستہ صحافی منوج كھانڈ لیكر کو بتاتے ہیں: ’وہ دوسری لڑکیوں کی طرح نہیں تھی۔ وہ شروع سے ہی باغی تیور والی رہی۔ اپنی بہن اور اپنے ساتھ ہونے والے واقعات سے متاثر ہوکر اس نے خود اپنی زندگی کا ہیرو بننے کا فیصلہ کیا اور یہ اس کی شخصیت، اس کی فلموں کے انتخاب میں دکھتا ہے۔ ’کوئین‘ کے بعد سے جس کنگنا کو میں دیکھتا ہوں وہ پہلے والی کنگنا نہیں ہے، کمزور تو بالکل بھی نہیں۔‘
کنگنا کی زندگی سے اہل خانہ سے جھگڑا، تنہائی میں رہنا، بہن پر تیزاب کا حملہ اور عاشقوں کے تشدد جیسی کئی کہانیاں وابستہ ہیں لیکن جو سب سے بڑا اور سنگین تنازع ان کے نام سے منسوب ہوا وہ حال ہی میں سپر سٹار ریتک روشن کے ساتھ ہونے والا تنازع ہے۔ یہ تنازع اس قدر آگے بڑھا کہ اس پر سیریل نہیں تو فلم تو بن ہی سکتی ہے۔
رتیک روشن نے اس معاملے پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا ہے: ’کوئی یہ نہ سمجھے کہ معاملہ ختم ہو گیا ہے، میں جلد ہی اس سے متعلق چیزوں کو لے کر سامنے آؤں گا۔‘
سنہ 2013 میں آنے والی فلم ’رجّو‘ کے دوران کنگنا اور فلم کے پروموشن کا کام سنبھالنے والی سسكرتا پانڈے کہتی ہیں: ’کنگنا کو ہر چیز اپنے من کے مطابق چاہیے، وہ عامر خان کی طرح پرفیكشنسٹ ہیں اور وہ ان لوگوں پر غالب رہتی ہیں جن کو کام کی معلومات اور تجربہ کم یا ہے یا پھر بلکل نہیں ہے۔‘
اب لوگ انھیں کنگنا نہیں بلکہ میڈم کہہ کر پکارتے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے بالی وڈ کے اپنے دس برسوں میں نام، پیسہ، شہرت کے علاوہ عزت بھی کمائی ہے۔
کنگنا کو ان کا پہلا نیشنل ایوارڈ دلانے والی فلم ’فیشن‘ (2008) کے ڈائریکٹر مدھر بھنڈارکر یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’ہماری باندرا کے ایک ہوٹل میں ملاقات ہوئی تھی اور کنگنا کو اس رول میں شوق نہیں تھا، وہ اس کے لیے نہ سوچ کر ہی آئی تھیں۔ لیکن میں جانتا تھا وہ کردار ان کے لیے ہی بنا ہے۔‘
مدھر کہتے ہیں: ’اس نے پریشانی دیکھی ہے، وہ کسی خاندان یا کیمپ سے نہیں آئیں، وہ ایک گاؤں سے آئی ہیں اور آج وہ جو بھی ہیں اپنے ڈیڈیکیشن اور محنت کی وجہ سے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو ان میں ایٹیٹیوڈ دکھ سکتا ہے لیکن جس کنگنا سے میں آٹھ برس پہلے ملا تھا یہ وہی کنگنا ہے، تھوڑی ٹھوس اور مضبوط، بالی وڈ کی ملکہ۔‘