تحریر : سید انور محمود محمودہ سلطانہ تحریک پاکستان سے منسلک رہیں، اس لیے ہر پاکستانی کے لیے وہ قابل قدر خاتون تھیں، انکے شوہر شیخ لیاقت حسین بھی آزادی کی تحریک میں شامل تھے، ان کے صاحبزادے کا نام عامر لیاقت ہے جو بول چینل پر بیٹھ کرمذہب اورحب الوطنی کے آڑ میں شاید کچھ لبرلز کو قتل کروانےکی سازش میں شامل ہے، ماضی میں مختلف ٹی وی چینلز کو بدلتا رہا ہےجس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک بکاو شخص ہے جس کے کیے روپ ہیں اور یہ سب کچھ کرنے کا اہل ہے۔آجکل بول چینل پر بیٹھ کر یہ جو کچھ کررہا ہے کہ اس سے کئی ممتاز قادری پیدا ہونے کا خطرہ ہے اور یہ ایک کھلی ہوئی دہشتگردی ہے، اس سے پہلے کہ کوئی نیا ممتاز قادری کوئی نئی دہشتگردی کر بیٹھے، حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر اس بات کا نوٹس لے۔ یہ نیشنل ایکشن پلان کی بھی کھلی خلاف ورزی کررہا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ہر اس شخص کے خلاف موثر کارروائی کی جائے گی جو مذہبی منافرت پھلائے گا ۔ عامر لیاقت کل تک جس جیوچینل سے کرڑوں روپے کمارہا تھا، جس کی تعریفوں کے یہ پل باندھتے ہوئے کبھی تھکتا نہیں تھا، آج اسی چینل کویہ نیلا پیلا کہہ رہا ہے، کیوں کہہ رہا ہے ؟یہ میر شکیل الرحمان جانے اور یہ جانے، لیکن نیلے پیلےکی آڑ میں عامر لیاقت نہ صرف مذہبی منافرت پھیلارہا ہے، بلکہ کچھ لبرلز کے نام لیکر ان کے خلاف بول رہا ہے، یہ ایک سازش ہے جو لبرلز کے ساتھ ساتھ ریاست کے بھی خلاف ہے۔
چھ جنوری2017 کی شام کو پتہ چلا کہ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے پروفیسرڈاکٹر سلمان حیدر لاپتہ ہوگئے ہیں، اگلے دن ان کے کچھ اور ساتھی بھی لاپتہ ہوگئے، ساری خبریں پڑھنے اور ٹی وی چینل دیکھنے اور بہت سے تجزیے پڑھنے کے بعد 16 جنوری کو میں نے دو حصوں پر مشتمل ایک مضمون ’’کیوں لاپتہ کرتے ہو‘‘ تحریر کیا تھا، اس مضمون کا تھوڑا ساحصہ میں آپ کو یہاں پڑھوانا چاہتا ہوں تاکہ آپ سمجھ سکیں کہ پاکستان کے عوام کے خلاف کیا سازش ہورہی ہے۔میں نے اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ ’’پاکستان میں آجکل سوشل میڈیا پر انتہا پسندی کے خلاف سرگرم ہیومن رائٹس بلاگرز کو غائب کیا جارہا ہے تو دنیا بھر میں اس بے انصافی کے خلاف بھرپور احتجاج کیا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا کے مطابق ’’میں بھی کافر توبھی کافر‘‘ جیسی شہرہ آفاق نظم کہنے والے شاعر، مصنف، ماہر تعلیم اور حقوق انسانی کے سرگرم کارکن پروفیسرڈاکٹر سلمان حیدربھی ان دس لاپتہ کارکنوں میں شامل ہیں جو گزشتہ دس دن سے لاپتہ ہیں۔سوشل میڈیا پر ہی زیادہ تر مذہبی شدت پسندوں کی طرف سے یہ افواہیں بھی پھیلائی جارہی ہیں کہ ڈاکٹرسلمان حیدر اور ان کے ساتھی بھینسا، موچی اور روشنی نام کے ایسےپیجز چلا رہے تھے، جو کہ اسلام اور افواج پاکستان کے خلاف بہت ہی بہودہ پروپگنڈہ کررہے تھے۔ اگرواقعی یہ صیح ہے تو میں ڈاکٹرسلمان حیدر اور ان کے ساتھیوں کےلیے کڑی سے کڑی سزا کا مطالبہ کرتا ہوں، ان تمام پر سائبر کرائم لا کے تحت مقدمہ درج کیا جائے اور الزام ثابت کرکے اس قانون کے تحت موت کی سزا دلوائی جائے، لیکن اگر ان پیجز سے ان افراد کو کوئی تعلق ثابت نہ ہوپائے تو ان افراد سے معذرت کرکے جلد سے جلد انہیں فوری طور پر باعزت بری کیا جائے‘‘۔
کوئی اس نام نہاد عالم دین عامر لیاقت سے یہ تو پوچھے کہ کیا میر شکیل الرحمان اور الطاف حسین کیا کسی مسجد کے پیش امام تھے جو ایک کی امامت میں نوکری کری اور دوسرئے کے امامت میں سیاست کی۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ جیو لبرل پالیسی کے تحت چلتا ہے، اور جیو میں اکثریت لبرل اینکر کی رہی ہے جس میں خود عامر لیاقت ایک لبرل کی حیثیت سے مختلف پروگرام چلاتا رہا ہے۔ الطاف حسین جس کے بارئے عامر لیاقت کے نئے آقا بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ وہ پکا لبرل ہے۔ عامر لیاقت تو کیا عامر لیاقت کے والد صاحب بھی اسی لبرل الطاف حسین کی قیادت میں قومی اسمبلی کے ممبر بنے تھے، خود عامر لیاقت بھی اسی لبرل کی قیادت میں قومی اسمبلی کا ممبراوروزیر بنا تھا اور ایک عرصے تک الطاف حسین کی قیادت میں ہی اپنی سیاست کرتا رہا ہے۔
Amir Liaquat
اب عامر لیاقت اپنی چرب زبانی اور نام نہاد ملا گیری کے زریعے بہت ہی معروف سماجی کارکن، اور بہت ہی اچھے لکھاری جبران ناصرکی جان کا دشمن بنا ہوا ہے، یہ وہی نوجوان ہے جس نے دو سال قبل لال مسجد اسلام آباد کے دہشتگرد ملا عبدالعزیز کی جانب سے آرمی پبلک اسکول پشاور کے قتل عام کی مذمت کرنے سے انکار کے بعد لال مسجد کے باہر ایک مظاہرہ کروایا تھا اور اس کے خلاف ایف آئی آر بھی کٹوائی تھی۔جبران ناصر کا کہنا ہے کہ ’’عامر لیاقت نے مختلف افراد پر مختلف نوعیت کے الزامات لگائے ہیں۔ کسی کو دہریہ کہا گیا ہے، کسی کو ’را‘ کا ایجنٹ یا ملک دشمن قرار دے دیا گیا ہے اور کسی پر توہین رسالت کا الزام لگایا گیا ہے۔ان الزاما ت کی وجہ سے مجھے سوشل میڈیا پر دھمکیاں دی جا رہی ہیں‘‘۔ایسی ہی شکایت ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان، صوبہ سندھ کے وائس چیئرمین اسد بٹ نے بھی کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ’’میری سمجھ سے باہر ہے کہ پیمرا کس طرح اس شخص کو ایسے پروگرام کرنے دے رہا ہے، جن میں وہ لوگوں کو گالیاں دے رہا ہے۔ اُن کی کردار کشی کررہا ہے اور عوام کو اُن کے خلاف تشدد پر اُکسا رہا ہے۔ معروف صحافی و تجزیہ نگار امتیاز عالم کا کہنا ہے کہ ’’عامر لیاقت مذہب کے نام پر نفرت پھیلا رہا ہے، یہ شخص سیاق و سباق سے ہٹ کر لوگوں کے کلپ دکھا رہا ہے۔ میں نے جو بات کہی، اُس کا ایک پس منظر تھا، جس کا لبِ لباب یہ تھا کہ مذہب کے نام پر ایک دوسرے کے گلے نہیں کاٹے جانے چاہییں۔ لیکن جب سے اس نے مجھ پر اور میرے گھرانے پر پروگرام کیا ہے، مجھے دھمکیاں موصول ہو رہی ہیں‘‘۔
اب جبکہ پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے بول ٹی وی چینل پر نشر ہونے والے عامر لیاقت کے پروگرام پر پابندی عائد کردی ہےاور پیمرا کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ عامر لیاقت اس چینل کے کسی نئے یا دوبارہ دکھائے جانے والے پروگرام میں کسی بھی حیثیت سے شریک نہیں ہوسکتے، نہ ہی انہیں اس کی اشتہاری مہم، آڈیو یا ویڈیو ریکارڈنگ میں آنے کی اجازت ہوگی۔ لیکن قانون شکن عامر لیاقت نے پیمرا کے اس حکم نامے کو ردی کی ٹوکری میں ڈال کر اپنے پروگرام ’ایسے نہیں چلے گا‘ کو چلایا (26 جنوری کی رات ) جس میں بہت زیادہ مذہبی منافرت اور نفرت انگیزی پھلائی گئی ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف صاحب آپ نے بڑئے واضع انداز میں چار نومبر 2015 کو اسلام آباد میں سرمایہ کاری کانفرنس سے خطاب کے دوران کہا تھا کہ “عوام کا مستقبل جمہوری اور لبرل پاکستان میں ہے”۔ توکیا آپ ان لبرل کو بچاینگے جن کی جانوں کو عامر لیاقت کے پروگرام ’ایسے نہیں چلے گا‘ کے نشر ہونے کے بعد سے خطرہ ہے۔