کراچی (جیوڈیسک) پاکستان تحریک انصاف کے راہنماؤں کے درمیان چند روز بعد ہی تلخیاں کھل کر سامنے آرہی ہیں۔۔۔ کراچی سے پارٹی کے رکن قومی اسمبلی اور معروف اینکر عامر لیاقت نے گورنر ہاؤس کراچی میں پارٹی کے دیگر ارکان کے اعزاز میں دیئے گئے عشائیے پر نہ بلانے پر سوشل میڈیا اور ٹی وی انٹرویو میں پارٹی قیادت پر سخت ناراضی کا اظہار کیا ہے۔
عامر لیاقت نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ؛
“میں پہلے ہی پوزیشن کلیئر کردوں۔ گورنر ہاؤس میں اس وقت کراچی کے تمام ایم این ایز اور ایم پی ایز کا کا اجلاس منعقد ہو رہا ہے لیکن بوجوہ اس میں مجھے نہیں بلایا گیا۔۔۔ کوئی بات نہیں! اس طرح ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں”
گورنر ہاؤس میں اس وقت کراچی کے تمام ایم این ایز اور ایم پی ایز کا کا اجلاس منعقد ہورہا ہے لیکن بوجوہ اس میں مجھے نہیں بلایا گیا۔۔۔ کوئی بات نہیں! اس طرح ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
ڈاکٹر عامر لیاقت نے پارٹی چیئرمین اور وزیر اعظم عمران خان پر تنقید کی اور کہا کہ وہ عمران خان کو وزیر اعظم بننے کے بعد کئی بار کراچی آنے کا کہہ چکے ہیں مگر وہ یہاں آنے کو تیار نہیں۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ عمران خان کراچی کو اہمیت دینے کو تیار نہیں۔ عامر لیاقت نے یہ بھی “انكشاف” کیا کہ تحریک انصاف کے کم و بیش 14 ارکان اپوزیشن بینچوں پر بیٹھ سکتے ہیں تاہم انہوں نے اپنے اس بیان کی مزید وضاحت نہیں کی۔
دوسری جانب تحریک انصاف کراچی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ عامر لیاقت سے رابطہ کرنے کی بارہا کوشش کی گئی مگر ان سے رابطہ نہ ہوا، انہیں عشائیے میں نہ بلانے کی کوئی اور وجہ نہیں۔
تحریک انصاف کے مرکزی ترجمان اظہر لغاری نے بھی ٹوئیٹر پر جاری اپنے پیغام میں کہا کہ کراچی سے منتخب پی ٹی آئی کا کوئی بھی نمائندہ اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ اسے عمران خان کے نام پر ووٹ ملے۔ مناسب وقت آنے پر عمران خان کراچی بھی آئیں گے۔
کراچی کی عوام عمران خان سے والہانہ پیار کرتی ہے، کراچی سے منتخب پی ٹی آئی کا کوئی بھی منتخب نمائندہ اس بات سے انکار نہیں کرسکتا کہ ووٹ عمران خان کا ہے نہ کہ کسی اور انفرادی شخص کا۔ انشاءاللہ جب مناسب وقت آئے گا وزیر اعظم عمران خان کراچی ضرور تشریف لائیں گے۔
معروف اینکر عامر لیاقت کا سیاسی اور پیشہ وارانہ کیرئیر تنازعات سے بھرپور رہا ہے۔ ان کے اکثر بیانات اور عمل پر تنقید کی جاتی رہی ہے تاہم بہت سے لوگ ان کے انداز بیان کو بے حد پسند بھی کرتے ہیں۔
پارٹی قیادت اور پالیسی کے خلاف ان کے بیانات سوشل میڈیا پر خوب زیر بحث بنے ہوئے ہیں۔ بہت سے لوگ جہاں ان کی حمایت کرتے نظر آ رہے ہیں وہیں انہیں اپنی ہی جماعت کے لوگوں سے سخت تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔