امریکہ کی پابندیاں، نشانہ صرف مسلمان

Amrica

Amrica

امریکی محکمہ خارجہ جسے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کہا جاتا ہے نے گزشتہ دنوں جماعة الدعوة سمیت چار تنظیموں کو لشکر طیبہ کا دوسرا نام قرار دے کر اس پر پابندی عائد کرنے اور تمام اثاثے منجمد کرنے کا اعلان کیا۔ اس اعلان کے ساتھ یہ بات ایک بار پھر کھل کر سامنے آ گئی کہ امریکہ کے نشانے پر صرف اور صرف مسلمانوں کی آزادی اور ظلم کے خاتمے کے خلاف آواز بلند کرنے والی تنظیمیں ہی ہیں۔ امریکہ نے اس حوالے سے ایک خصوصی قانون بنا رکھا ہے جسے امیگریشن اینڈ نیشنلنٹی ایکٹ کہا جاتا ہے جو 1965ء میں منظور کیا گیا تھا۔ اس کے سیکشن 219 کے تحت امریکہ اپنے ملک کے علاوہ دیگر غیرملکی تنظیموں کو دہشت گرد قرار دیتا ہے اور انہیں غیرملکی دہشت گرد تنظیمیں ”فارن ٹیررسٹ آرگنائزیشن” کے زمرے میں رکھا جاتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ امریکی محکمہ خزانہ بھی کسی کو دہشت گرد قرار دینے کا اختیار رکھتا ہے اور یہ سارا عمل یک طرفہ ہوتا ہے یعنی کسی کو ”دہشت گرد” قرار دینے سے پہلے اسے نہ تو آگاہ کیا جاتا ہے اور نہ ہی اس سے کوئی اس بارے میں رائے یا وضاحت طلب کی جاتی ہے۔ امریکہ نے جتنی تنظیموں اور اداروں کو اس حوالے سے دہشت گرد قرار دے رکھا ہے ان میں بھاری اکثریت مسلم آزادی پسند یا جہادی تنظیموں یا ان تنظیموں اور افراد کی ہے جو دنیا بھر میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں لیکن حیران کن طو رپر مسلمانوں پر ظلم ڈھانے والی کسی ایک بھی ہندو’ عیسائی، یہودی یا بودھ مت تنظیم یا ان کے کسی ایک رہنما کا نام بھی ان فہرستوں میں شامل نہیں ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سارا کچھ صرف اور صرف اسلام اور مسلمانوں کے خلاف عالمی جنگ کا حصہ ہے۔ امریکہ کی اس فہرست میں سب سے پہلا نام فلسطین کے ابو نضال آرگنائزیشن اور دوسرا ابوسیاف گروپ فلپائن کا ہے جنہیں 8اکتوبر1997ء کو دہشت گرد قرار دیا گیا تھا۔

اس روز 20تنظیموں کو دہشت گرد قرار دیا گیا تھا جن میں سب سے زیادہ اسرائیل کے خلاف برسرپیکار فلسطینی جہادی گروپ تھے۔ یہاں یہ بات بھی انتہائی قابل غور ہے کہ امریکہ کے 25 جون کو اس حوالے سے جماعة الدعوة پر جس پابندی کا اعلان کیا ہے اس کے پیچھے سو فیصد بھارت کا ہی ہاتھ ہے کیونکہ امریکہ نے اپنے بیان میں یہ کہا ہے کہ گزشتہ ماہ 23مئی کو افغان صوبہ ہرات میں بھارتی قونصلیٹ پر جو حملہ ہوا تھا اس میں لشکر طیبہ کا ہاتھ تھا حالانکہ لشکر طیبہ نے اس کی تردید کی تھی۔ ساتھ ہی امریکہ نے کہا کہ لشکر طیبہ نے مشہور عالم 2008ء کے ممبئی حملوں کی بھی ذمہ داری قبول کی تھی حالانکہ یہ ذمہ داری قبول نہیں کی گئی تھی اور نہ ہی اس کا کوئی ثبوت ہے۔ ذمہ داری قبول کرنے والوں نے اپنا نام دکن مجاہدین بتایا تھا۔ ہرات میں بھارتی قونصلیٹ پر حملے کو لشکر طیبہ کی کارروائی سب سے پہلے بھارت نے ہی قرار دی تھی جس کے بارے میں بعد میں بیان امریکی کٹھ پتلی حامد کرزئی نے بھی دیا تھا۔ جس سے صاف نظر آتا ہے کہ یہ سارا کھیل طے شدہ تھا۔ یہ امریکہ ہی تھا جس نے 2008ء کے ممبئی حملوں کے بعد بھارتی واویلا پر فوراً عملدرآمد کرتے ہوئے سب سے پہلے جماعة الدعوة پر اقوام متحدہ سے پابندی لگوانے میں بنیادی کردار ادا کیا تھا اور خود بھی جماعة الدعوة پر پابندی کا اعلان کیا۔ پھر امریکہ نے جماعة الدعوة کے 8 رہنمائوں پر پابندیاں عائد کیں اور پھر اس کے بعد امیر جماعت الدعوة حافظ محمد سعید اور حافظ عبدالرحمن مکی کے سر کی قیمت بالترتیب 10 ملین ڈالر اور 2 ملین ڈالر مقرر کی تھی۔ امریکہ اس حوالے سے کسی کا جوابی ردعمل سننے کی تکلیف تو نہیں کرتا۔ اس لئے اس سارے سلسلے پر نامور امریکی دانشور نام چومسکی سخت تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امریکہ کا یہ اقدام سراسر زیادتی اور ظلم ہے کہ آپ کسی کو دہشت گرد تک قرار دے دیں اور اس کا موقف بھی نہ سنیں۔

Jamaat-ud-Dawa

Jamaat-ud-Dawa

امریکہ نے جب جماعة الدعوة اور اس کے ساتھ تین دیگر تنظیموں، خاص طور پر تحریک حرمت رسولۖ پاکستان کو لشکر طیبہ کا ہی نام قرار دے کر اس پر پابندی عائد کی تو اس کے ساتھ ساتھ امریکہ نے جماعة الدعوة کے دو رہنمائوں کرنل (ر) نذیر احمد چودھری اور
بابا جی ابوالوفاء محمد حسین گل کو بھی عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر کے ان پر اپنے ملک میں داخلے، اپنے ملک میں کاروبار یا اپنے لوگوں کے ساتھ کاروباری شراکت داری یا امریکہ میں اکائونٹ رکھنے پر پابندی عائدکی۔ اس فیصلے کے فوری بعد جماعت کے امیر پروفیسر حافظ محمد سعید نے ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ امریکہ خود سب سے بڑا دہشت گرد ہے جس نے افغانستان میں 8 لاکھ بے گناہ لوگوں کا قتل کیا۔ جس نے عراق پر بلاوجہ حملہ کر کے 10 لاکھ لوگ شہید کئے۔ جو دنیا بھر میں ڈرون حملے کر رہا ہے اور روزانہ نہتے اور مظلوم عورتوں اور بچوں کو بھی گولہ باری کا نشانہ بنا رہا ہے۔ ہم ان پابندیوں کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں، انکی ہمیں کوئی پرواہ نہیں۔ ہمیں پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالتوں نے ہر طرح کی تحقیق و تفتیش کے بعد بھارتی و امریکی ہر الزام سے بری کیا ہے۔ ساتھ ہی کہا کہ امریکہ کے پاس اگر کوئی ہمارے خلاف ثبوت ہیں تو وہ دنیا کے جس فورم پر چاہے، انہیں پیش کر کے ہمارے خلاف مقدمہ چلا سکتا ہے۔ ہم سامنا کرنے کو تیار ہیں اور اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو بھاڑ میں جائے۔

امریکہ نے نائن الیون کے بعد لشکر طیبہ سمیت دنیا بھر کی بہت سی جہادی تنظیموں کو القاعدہ اور افغان طالبان کا ہمنوا قرار دے کر اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 1267 کے ذریعے دہشت گرد قرار دلوایا تھا۔ اقوام متحدہ کی قرارداد 1267 کا مطلب یہ تھا کہ دنیا چونکہ دہشت گردی کی تعریف پر متفق نہیں ہو سکی اس لئے آج کے بعد دنیا میں القاعدہ اور افغان طالبان جو ملا محمد عمر کے ساتھی ہیں؟ الگ سے ”دہشت گرد” ہوں گے۔ یوں اس کے بعد امریکہ نے اقوام متحدہ کے ذریعے جس کو چاہا، اس فہرست میں شامل کر کے اسے دہشت گرد بنا ڈالا۔ اقوام متحدہ ہو یا امریکہ، اس کے بعد کسی کو جوابدہ نہیں کہ وہ جس کو دہشت گرد قرار دے رہے ہیں، ان سے کوئی وضاحت بھی لی جائے گی کہ نہیں۔

بہرحال امریکہ کی ان پابندیوں کا اطلاق تو محض امریکہ کی اپنی سرزمین تک ہوتا ہے اور جماعة الدعوة کا سارا نیٹ ورک چونکہ پاکستان میں ہے، لہٰذا ان پابندیوں کا کسی بھی شکل میں اطلاق یہاں نہیں ہوتا اور نہ ہی پاکستان کسی امریکی فیصلے کا پابند ہے۔ ویسے تو دنیا میں ”جس کی لاٹھی، اس کی بھینس” کا اصول رائج ہے۔ امریکہ تو کجا دنیا اقوام متحدہ کی قراردادوں پر بھی عمل نہیں کرتی۔ بھارت کا معاملہ کشمیر اور اسرائیل کا معاملہ فلسطین میں سب کے سامنے ہے۔ اس لئے جب اقوام متحدہ کے فیصلوں یا پابندیوں کی کوئی حیثیت نہیں تو امریکہ تو اس سے بہت دور ہے۔ امریکہ کی پابندیوں کو تو ایک طرف رکھیے کہ یہ تو محض رسمی کارروائی ہے وگرنہ امریکہ کی افغانستان اور عراق پر سالہاسال کی بمباری سے اسے کیا ملا؟ امریکہ پاکستان کے علاوہ افغانستان، یمن، صومالیہ وغیرہ میں بھی ڈرون حملے کر رہا ہے لیکن اسے ان حملوں میں آج تک کتنی کامیابی ملی؟ دنیا کے سامنے ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اس وقت ہر لحاظ سے زوال کا شکار ہے ۔دنیا میں ہر محاذ پر شکست اور رسوائی اس کے حصے میں آئی ہے اور وہ اب ایسی بھونڈی حرکات کر کے اپنا رعب و دبدبہ قائم رکھنا چاہتا ہے ،جوکہ اب ممکن نہیں ہے۔ جماعة الدعوة کے کارکنان ہوں یا اہل پاکستان، انہیں امریکہ کے اس اقدام پر کسی پریشانی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ امریکہ نے مسلمانوں کو دنیا سے ختم کرنے کے لئے کیا کچھ نہیں کیا لیکن مسلمان کیا ختم ہو گئے، ہرگز نہیں، مسلمان تو پہلے سے بڑھے ہی ہیں۔

 Ali Imran Shaheen

Ali Imran Shaheen

تحریر: علی عمران شاہین