ایمسٹر ڈیم اور فرینکفرٹ کے لیئے پی آئی اے کی پروازیں ختم کرنے کا حکومتی اعلان

چھ ستمبر کی تاریخ پاکستانی عوام کے لیئے بڑے ولولے اور بہادری کی داستانوں کے ساتھ ہر سال آتی ہے اور پاکستان کا بچہ بچہ چھ ستمبر کو یاد کرتا ہے کیونکہ اس دن ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان نے صرف اٹھارہ سالہ پاکستان پر بلاوجہ اور ہر قسم کے لائو لشکر کے ساتھ حملہ کر دیا تھا ہندوستان کی اس جارحیت کو پاک فوج نے پاکستان کے دلیر عوام نے جس طرح دشمن کے ارادوں کو خاک میں ملا کر پسپا کیا اس پر یہ قوم بلاشبہ فخر کرسکتی ہے اور لائق صد بار تحسین کے قابل ہے۔

لیکن اس سال چھ ستمبر کا دن قومی ائرلائن پی آئی اے کی پراوازوں کو ایمسٹرڈیم اور فرینکفرٹ کے لیئے منسوخی کا حکمنامہ لے کر ا رہا ہے جو کہ ان دونوں ملکوں میں رہنے والے ہزاروں محب وطن پاکستانیوں کو شاید حب الوطنی کی سزا دینے کے مترادف ہے۔ آج کے مضمون کو وسیع ابتدائیہ کے بغیر اس لیئے شروع کر رہاہوں کہ میرے اپنے جذبات دیگر پاکستانی تارکین ِوطن کے جذبات کے ساتھ ہم آہنگ رہ سکیںکیونکہ بعض اوقات ابتدائیہ کلمات اتنے وسیع ہو جاتے ہیں کہ تحریر افسانوی رنگ میں رنگ جاتی ہے اور آج میں اس سے اجتناب کروں گا۔

پوری دنیا میں غیرت مند قیادتیں اپنے ورثے کو محفوظ کرنے کے لیئے بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کرتی اور اپنی شناخت کو بچاتی ہیں۔ پی آئی اے پاکستان کی ایک پہچان ہے اور دنیا میں دوسرے نمبر کی ائیرلائن کے طور پر راج کر چکی ہے ایمسٹرڈیم کا روٹ نیویارک تک بڑی کامیابی سے چلتا تھا۔ بدقسمتی سے اپنے من پسند منظورِ نظر افراد کے ذریعے اس منافع بخش ادارے کو جی بھر کر لوٹا گیا۔

اور یہ قومی ائیر لائن ملک کے دیگر اداروں کی طرح دن بہ دن زوال پذیر ہوتی گئی کیونکہ دنیا کی کسی ائیر لائن میں ایک فلائیٹ کے لیئے جتنا عملہ ہوتا ہے اس کے مقابلے میں پی آئی اے نے کئی گنا زیادہ عملہ بھرتی کیا ہوا ہے۔ ہمارے ملک کے حکمران اپنے عمل سے یہ ثابت کر رہے ہیں کہ یہ عوام کے نمائندے نہیں بلکہ پاکستان کو تباہ کرنے کی خواہش رکھنے والے دشمنوں کے پٹھو ہیں لہذا ان کے ہر فیصلے سے عوام میں بے چینی پھیل رہی ہے اور مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ قومی اداروں کے سربراہان کس قسم کی چیزیں ہیں کہ ہر زوال پذیر ادارے کو سنبھالا دینے کی بجائے دفن کرنے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔

اگر حکمرانوں کی اس پالیسی کو درست مان لیا جائے تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوگا کہ آنے والے دنوں میں تمام منافع بخش اداروںکا مستقبل کیا ہو گا؟ ہالینڈ اور فرینکفرٹ میں رہنے والے ہزاروں افرادکی درد مندانہ اپیل ہے کہ ارباب اختیار اپنی عیاشیوں کو ختم کریں اور پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت کو واپس لا ئیں اور ڈوبتے ہوئے اداروں کو سہارا دیں تاکہ غیر ممالک سے سرمایہ کاری ممکن ہو سکے۔ اپنے اپنے چارٹر طیاروں میں سفر کرنے والے یہ حکمران کیا جانیں کہ جب کسی محب وطن پاکستانی کی میت کو پاکستان لیجانا ہوگا تو اپنے پیاروں کے غم میں نڈھال خاندان پر کیا گزرے گی اورمیت کتنی دشواری اور تاخیر سے پاکستان پہنچے گی اور یہ اذیت کسی طرح بھی حکومت کے لیئے نیک نامی کا باعث نہیں بنے گی۔

اورسیز پاکستانی تو ابھی چیف جسٹس کے تارکین وطن کی حب الوطنی کو مشکوک قرار دینے کے زخم کو بھرنے کا انتظار کر رہے تھے کہ اس جمہوری حکومت نے ہالینڈ میں مقیم پاکستانیوں کے فوت ہوجانے والے عزیز و اقارب کو بھی سزا دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ حکومت پاکستان فوری طور پر اس ظالمانہ فیصلے پر نظرثانی کرتے ہوئے قومی ائیر لائن کی ایمسٹرڈیم اور فرینکفرٹ کی فلائیٹ کو بحال کرنے کا اعلان کرے کیونکہ قومی اداروں کی بربادی کے ذمہ دار عوام نہیں بلکہ حکومت ہے یاد رکھیں ہم احتجاج کے ساتھ ساتھ بددعا ئیں تو کر ہی سکتے ہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ کی بے آواز لاٹھی حرکت میں آجائے اورآپ بھی ہم پردیسوں کے ساتھ غریب الوطن ہوجائیں۔