کافی عرصہ پہلے پی ٹی وی پر ”اندھیرا اُجالا” نامی ڈرامہ بہت مقبول ہوا۔ اُس ڈرامے میں معروف مزاحیہ اداکار عرفان کھوسٹ نے حوالدار کا کردار ادا کیا۔ اُس کا تکیہ کلام تھا ”دہ جماعت پاس ہوں، ڈائریکٹ حولدار ہوں”۔ ہماری سیاسی تاریخ میں بھی ایک ایسا ہی مزاحیہ کردار پایا جاتا ہے جس کا تکیہ کلام ہے ”آٹھ دفعہ وزیر رہ چکا ہوں”۔ بات ڈھاکے کی ہو یا بنگالے کی، اُس کی تان آٹھ دفعہ کی وزارت پر ہی ٹوٹتی ہے۔ نامِ نامی، اسمِ گرامی موصوف کا شیخ رشید احمد ہے جو آجکل ریلوے کے وزیر ہیں۔رانا ثناء اللہ اُنہیں کسی اور نام سے پکارتے ہیں لیکن ہم ایسے غیرپارلیمانی الفاظ سے گریز ہی کرتے ہیں۔ ہم نے تو لفظ ”سلیکٹڈ” بھی اپنی لُغت سے نکال دیا ہے حالانکہ یہ غیرپارلیمانی نہیں لیکن جب سپیکر قومی اسمبلی نے اِسے غیرپارلیمانی قرار دے دیا تو پھر ہم کون ہوتے ہیں ”سلیکٹڈ” جیسا لفظ استعمال کرنے والے۔ہاں تو بات ہو رہی تھی شیخ رشید کی جس کے دَور (دَس ماہ) میں ریلوے کے 75 چھوٹے بڑے حادثات ہوئے۔ رحیم یارخاں کے قریب اکبربکتی ایکسپریس کا تازہ ترین حادثہ تو انتہائی خوفناک اور المناک تھاجس میں 24 افراد جاں بحق اور 100 سے زائد زخمی ہوئے۔
اکبر بکتی ایکسپریس دلہارریلوے سٹیشن پر کھڑی مال گاڑی سے جا ٹکرائی جس سے یہ جانکاہ حادثہ ہوا۔ اِس سے پہلے 20 جون کو جناح ایکسپریس بھی اِسی طرح ٹریک پر کھڑی ٹرین سے جا ٹکرائی تھی جس سے ٹرین کے دونوں ڈرائیور جاں بحق ہوئے۔ آئے روز ہونے والے ریلوے حادثات کی ذمہ داری اُٹھانے والا ندارد۔ وزیرِ ریلوے سے سوال کیا گیا کہ 7 جنوری 2017ء کو ریلوے حادثے کے بعد عمران خاں نے اُس وقت کے وزیرِریلوے خواجہ سعد رفیق سے یہ کہتے ہوئے استعفیٰ مانگا تھا کہ جب مہذب ملکوں میں ریلوے حادثہ ہوتا ہے تو وزیرِریلوے مستعفی ہو جاتا ہے، خودشیخ صاحب بھی با آوازِبلند خواجہ سعدرفیق سے استعفیٰ مانگتے رہے تو کیا اب وہ اکبر بکتی ایکسپریس کے حادثے کے بعد مستعفی ہوںگے؟۔ شیخ رشید کا جواب تھا ”جب ضمیر پر بوجھ ہو گا، استعفیٰ دے دوںگا۔ میں ضمیر کا قیدی ہوں، آٹھویں دفعہ وزیر بنا ہوں”۔ یہ تو ہم بھی تسلیم کرتے ہیں کہ شیخ صاحب ضمیر کے قیدی ہیں اور یہ اُن کی ”ضمیری قلابازیاں” ہی تو ہیں جو وہ مختلف حکومتوں میں 8 دفعہ وزیر رہ چکے۔ 2002ء کے انتخابات میں اُنہیں نوازلیگ نے ٹکٹ نہیں دیاتو اُنہوں نے راولپنڈی کی قومی اسمبلی کی دو سیٹوں سے یہ کہہ کر الیکشن لڑا کہ وہ انتخاب جیت کر یہ سیٹیں نوازشریف کے قدموں میں رکھ دیں گے۔ وہ دونوں سیٹیں جیت کر آمر پرویزمشرف کی قدم بوسی کے لیے حاضر ہو گئے۔
تب یقیناََ اُن کے ضمیر نے ہی کہا ہو گا کہ بہتی گنگا میں اشنان کرکے پوتر ہو جاؤ۔ 11 مئی 2007ء کو سابق چیف جسٹس افتخارچودھری کی آمد پر کراچی خونم خون کر دیا گیا۔اُسی دن آمر پرویزمشرف ہوا میں مُکّے لہرا لہرا کر اپنی اندھی طاقت کا اظہار کر رہا تھا۔پرویزمشرف کے اُس جلسے کی نظامت شیخ رشید کے پاس تھی۔ شاید اُس کے ضمیر نے ہی کہا ہوگا کہ لاشوں پہ بڑھکیں مارنادِل خوش کُن ہوتا ہے۔ ویسے بھی شیخ رشید کے ضمیر کو لاشوں کی سیاست بہت مرغوب ہے۔ اُس نے تو عمران خاں کو بھی کہا تھا کہ تحریک کی کامیابی کے لیے لاشیں چاہییں، اگر کوئی اور لاش دستیاب نہیں تو اُسے مار کر لاش کندھے پر اٹھا لی جائے۔ عمران خاں کے جلسوں میں جلاؤ، گھیراؤ، مارو، مرجاؤ، جیسے نعرے بھی اُس کا ضمیر ہی لگاتا رہا۔ جب شیخ رشید کے ضمیر کو لاشیں اتنی ہی مرغوب ہیں تو پھر بھلا اکبر بگتی ایکسپریس میں 24 افراد کے جاںبحق ہونے پر استعفیٰ چہ معنی دارد۔ لوگ لاکھ یہ کہتے پھریں کہ ضمیر کی خلش کے لیے ضمیر کا ہونا ضروری ہے لیکن ایسی ”فضول” باتوں کا شیخ صاحب پر ”کَکھ” اثر نہیں ہوتا۔
شیخ رشید نے ایک ٹی وی انٹرویو میں بتایا کہ ریلوے لائن پر 2800 پھاٹک ہیں جن میں سے 1500 سے زائدپھاٹک کھلے ہیں اور اُن پر کوئی اہلکار نہیں (ریلوے میں 10 ہزار نوکریاںخالی پڑی ہیں جنہیں پتہ نہیں شیخ صاحب کیوں پُر نہیں ہونے دیتے)۔ اُن کے مطابق 13000 پُل بھی ریلوے لائن کے راستے میں آتے ہیں۔ اُنہوں نے یہ کہہ کر کم از کم ہمیں تو حیران کر دیا ”ہم تمام پھاٹک اور پُل ختم کر رہے ہیں۔ اب ٹرینیں یا تو اِن کے نیچے سے جائیں گی یا اوپر سے”۔ ہم پچھلے دنوں امریکہ کے شہر ”سین انٹونیو” گئے تو دیکھاکہ اُس شہر میں نیشنل ہائی وے کے اوپر اووَرہیڈز کی صورت میں دوسری نیشنل ہائی ویز بنا دی گئیں۔ کئی کئی کلومیٹر لمبے اووَرہیڈز عجب نظارہ پیش کر رہے تھے۔ امریکہ کے دوسرے شہروں میں بھی ہم نے اووَرہیڈز کا جال بچھا دیکھا ۔ ہم سوچ رہے تھے کہ کاش پاکستان میں بھی ایسا ہی ہوتا لیکن یہاں تو میاں شہباز شریف کے چند اووَرہیڈز ہی ہضم نہیں ہو پا رہے۔
اب شیخ رشید نے ہزاروں کی تعداد میں انڈرپاسزز اور اووَرہیڈز کی بات کرکے جی ”گارڈن گارڈن” کر دیا لیکن سوچتے ہیں کہ کیا ایسا ہونا ممکن ہے؟۔ جس ملک میں گلی گلی میں یہ نعرہ گونج رہاہو ”پندرہ کی روٹی، بیس کا نان، یہ ہے نیا پاکستان” وہاں ریلوے ٹریک کو سگنل فری کرنے کی بات احمقوں کی جنت میں بسنے کے مترادف ہے۔ شیخ صاحب کا یہ نعرہ ایسے ہی ہے جیسے 100 دنوں میں ملک کی تقدیر بدلنے کا نعرہ یا پھر ایک کروڑ نوکریوں اور 50 لاکھ گھروں کا سنہرا روپہلا خواب۔ شیخ رشید قوم کے ساتھ جو ”ہَتھ” کر سکتے تھے، وہ اُنہوں نے کیااور دو، دو، تین،تین بوگیاں انجن کے ساتھ لگا کر کئی نئی ٹرینوں کا کپتان کے ہاتھوں افتتاح کروا دیا۔ شیخ صاحب بھی خوش اور کپتان بھی خوش لیکن ہوا یہ کہ اب 212 کوچز اور 69 انجن کم ہو گئے۔ دنیا جہان میں یہ اصول ہے کہ ریلوے میں کم از کم 15 فیصد ”بیک اَپ” رکھا جاتا ہے لیکن یہ سارا بیک اَپ شیخ صاحب نئی ٹرینیں چلا کر افتتاح کروانے کے شوق میں ڈکار گئے۔ اب اگر کسی ٹرین کا انجن خراب ہوتا ہے تو وہ وہیں کھڑی ہو جاتی ہے کیونکہ بیک اَپ ہی نہیں۔ سمجھ سے بالا کہ آخر تحریکِ انصاف کی حکومت وہ کہتی کیوں ہے جو کر نہیں سکتی۔ اگر حکومت کچھ کرتی نظر آرہی ہوتی تو وزیرِاعظم کی مقبولیت کا گراف تیزی سے نیچے کی طرف گامزن نہ ہوتا لیکن کپتان کو تو ”این آر او” اور ”نہیں چھوڑوںگا” جیسے نعروں سے ہی فرصت نہیں۔ اُنہیں تو مریم نواز کی میڈیا کے سامنے پیش کی گئی ویڈیو میں بھی این آر او ہی نظر آتا ہے۔
ایک ضمیر کے قیدی احتساب عدالت کے جج ارشد ملک بھی ہیں جنہیں ضمیر کی خلش نے اُس وقت پریشان کیا جب مریم نواز نے آڈیو اور ویڈیو کے ذریعے میڈیا کے سامنے اُن کا پول کھول دیا۔ مریم نواز کی میڈیا کانفرنس کے اگلے دن جج صاحب نے پریس بریفنگ میں فرمایا کہ ویڈیو نقلی اور جعلی ہے جس میں حقائق کو توڑمروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ پھر اُنہوں نے 12 جولائی کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں بیانِ حلفی دیا کہ نوازلیگ نے اُن پر بھرپور دباؤ ڈالا، 16 سال پہلے کی ویڈیو دکھا کر بلیک میل کرنے کی کوشش کی،حسین نواز نے سعودی عرب میں 50 کروڑ روپے رشوت کی پیش کش کی اور یہاں تک کہا کہ دنیا کے جس ملک میں چاہتے ہو، وہاں تمہارا معہ اہل وعیال بندوبست کر دیا جائے گا لیکن وہ جھکے نہ بِکے اور فیصلہ میاں نوازشریف کے خلاف کر دیا۔ جج صاحب نے بیانِ حلفی میں یہ بھی کہا کہ وہ جاتی اُمرا میں میاں نوازشریف سے ملے اور میاںصاحب کو کہا کہ اُنہوں نے میرٹ پر فیصلہ کیا ہے جس پر میاں صاحب ناراض ہو گئے اور ملاقات ختم ہو گئی۔ سوال مگر یہ کہ جب اُن پر دباؤ ڈالا جا رہا تھا، رشوت کی پیش کش کی جا رہی تھی اور بلیک میل کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی تو وہ یہ سب کچھ نگران جج کے علم میں کیوں نہ لائے؟۔
سوال یہ بھی ہے کہ اُنہوں نے میاں نوازشریف، حسین نواز اور میاں خاندان کے قریبی دوست ناصر بٹ سے ملاقات کیوں کی؟۔ کیا دنیا کا کوئی بھی جج ملزمان یا مجرمان کے ساتھ یوں دھڑادھڑ ملاقاتیں کرتا ہے؟۔ مریم نواز کی پیش کردہ آڈیوویڈیوغلط ہے یا درست، اِس کا فیصلہ تو عدالت نے کرنا ہے لیکن جج صاحب کے بیانِ حلفی نے عدلیہ پر اعتماد کی دھجیاں بکھیر دیں۔ حیرت ہے کہ اِس کے باوجود وزیرِقانون فروغ نسیم اور مشیر شہزاد اکبر نے جج صاحب کی حمایت میں پریس کانفرنس کی۔ یقیناََ یہ حبّ ِ علی نہیں، بغضِ معاویہ ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ حکمران سارا معاملہ اعلیٰ عدلیہ پر چھوڑ کر اپنے آپ کو اِس معاملے سے الگ کر لیتے لیکن وہ آج بھی شریف خاندان کی مخالفت میں ڈَٹ کر کھڑے ہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے تو جج صاحب کو احتساب عدالت سے برطرف کرکے لاہور ہائیکورٹ میں رپورٹ کرنے کا حکم دے دیا لیکن حکمران بہرحال شریف خاندان کو سزا دینے کی تگ ودَو میں ہیں۔ شنید ہے کہ مریم نواز کی آڈیوویڈیو کا فرانزک ٹیسٹ کروایا جا چکا ہے اور یہ ثابت ہو چکا کہ آڈیوویڈیو بالکل درست ہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر قوم آنے والے دنوں میں کئی اور ہوشربا انکشافات کا انتظار کرے۔