تحریر : انجینئر افتخار چودھری بات سیدھی سی ہے اگر عدالت کے اعلی منصب دار ججوں نے چاہا کہ وزیر اعظم پاکستان کو سزا ہو تو ان کے لئے یہی ثبوت کافی ہے کہ پاکستان کے انتہائی اہم عہدے پر فائز شخص نے مقدس ترین ایوان میں کھڑے ہو کر اراکین کے سامنے قوم کے سامنے ڈھٹائی سے جھوٹ بولا ہے۔ جھوٹ بھی پائوں جوڑ کے پیسے والدصاحب کے تھے انہوں نے دبئی میں مل لگائی دبئی سے جدہ مل لگی پھر فلیٹ خریدے۔اور آخر میں ایک نیا وکیل مل گیا جو کہتا ہے کہ ساریاں گلاں چھڈو قطر کے پرنس کا نام دے دو۔قطری بی ایم ڈبلیوز، قطری گیس ۔جانے کیا کیا ان ظالمانہ نظام والی حکومتوں کی قباحتیں ہیں۔قطر کے حکمرانوں نے تو اپنے ابے کو معاف نہیں کیا تھا پاکستان میں کیا گل کھلائیں گے۔
عربی میں ایک ورقہ تعریف ہوا کرتا ہے۔جسے سو پچاس ریال دے کر ایک شہر سے دوسرے شہر جانے کے لئے ہم کفیلوں سے لیا کرتے تھے۔(اللہ بیڑہ غرق کرے ان جباروں کا جو جونک کے بھی باپ ہیں)قطری ورقہ تعریف قوم کو ایک پھکی کی صورت میں دینا ہوگا۔کسی نئے سودے میں یہ نیافاتورہ ادا کیا جائے گا۔محترم نواز شریف اور ان کے پورے ٹبر نے جھوٹ بولا ہے بچوں کی کوئی بات نہیں جناب وزیر اعظم کی باں ویلنے میں آئی ہوئی ہے۔اب دیکھتے ہیں روء رہتی یا گنا؟ جھوٹ کی سزا آئین میں ٦٢ اور ٦٣ میں موجود ہے۔وزیر اعظم نا اہل ہو سکتے ہیں قوم کی جان چھوٹ سکتی ہے۔
دوسری جانب اگر حامد خان کیا جسٹس کیا نی بھی آ جائیں ان کی دال نہیں گلے گی۔اخبار کے ٹکڑے جب ان کی ضرورت تھی وہ ایک مقدس اوراق مان لئے گئے تھے اور بی بی کی چھٹی کرا دی گئی تھی۔حضور دیکھئے بات وکیلوں کی نہیں ہے بات ججوں کی ہے۔ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کل ہی کی بات ہے اور یوسف رضا گیلانی کی قربانی بھی ماضی قریب میں ہمیں نظر آ تی ہے۔میں نے تو ذاتی طور پر کہہ دیا تھا کہ عمران خان اپنا کیس جو ان کا اپنا نہیں قوم کا کیس ہے اسے اللہ کی عدالت میں داخل کر دیں۔ان دنیاوی عدالتوں سے کچھ نہیں ملنے کا۔ بکری والا قصہ تو مشہور ہے جس میں جج مدعی کو کہتا ہے یہ بکری ہے میں بھی اسے دیکھ رہا ہوں کہ یہ بکری ہے پوری دنیا اسے دیکھ کر کہہ سکتی ہے کہ یہ بکری ہے لیکن اب تم ثابت کرو کے یہ بکری ہے۔
PTI
مجھے آج کسی سے بات نہیں کرنی صرف اور صرف پی ٹی آئی کے ان بھولے بادشاہوں سے بات کرنی ہے جو لٹھ لے کر حامد خان پر چڑھ دوڑے ہیں۔بعض لوگ تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ مفت کا کیس وہ نہیں لڑتے۔انتہائی افسوس کی بات ہے کہ پاکستان کی عدالتی زندگی میں نفیس نام حامد خان کا ہے جس نے ہر دور میں آمروں کو للکارا اور اللہ نے انہیں فتح بھی دی۔مجھے پی ٹی آئی میں آئے دس سال ہونے کو ہیں اس دوران حامد خان کے قریب ہونے کا موقع ملا میں نے انہیں ہمیشہ کارکنوں کے دلوں کے قریب پایا وہ اس وقت پارٹی کے سینئر وائس چیئرمن تھے جب پارٹی ٹانگے کی سواری کہلایا کرتی تھی۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتحابات میں ان کا گروپ ہمیشہ جیتا رہا چند سالوں سے عاصمہ جہانگیر نے نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی حمائت سے ان کے گروپ کوہرایا مگر اس سال حامد خان گروپ نے انہیں شکست دے کر اعزاز بر قرار رکھا۔
ہم زود رنج ہیں ڈنڈا ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے خواہش یہ ہوتی ہے کہ یہ چلتا رہے کوئی دشمن نہ ملے اپنے کا ہی کھنہ کھول کر سکون پاتے ہیں اور اب یہ ڈنڈہ حامد خان پر چل رہا ہے۔کیس عدالت میں ہے عدالت جو بھی فیصلہ کرے گی فریقین کو ماننا ہوگا۔خواجہ آصف کا فیصلہ سامنے آیا لوگوں کو فیصلے کی تفصیلات کا علم ہے۔عدالت نے فیصلہ دیا کہ خواجہ آصف کی ذمہ داری نہیں تھی کہ وہ تھیلوں کی حفاظت کرتے لہذہ قانون انہیں اس وجہ سے جیتا ہوا قرار دیتا ہے۔یقین کیجئے اس فیصلے کو پڑھ کر وکھیاں ٹٹ ٹٹ جاتی ہیں یعنی ان تھیلوں کی ذمہ داری عثمان ڈار کی تھی؟یہ کیس ڈار اور الیکشن کمیشن کے درمیان تھا ۔الیکشن کمیشن کو فریق بنایا گیا تھا میں اس فیصلے کو من و عن مانتا ہوں لیکن اس پر تنقید کا حق رکھتا ہوں بعین اسی طرح جس طرح جوڈیشنل کمیشن نے مینگنیں بھر کر دودھ دیا تھا کہ بے قاعدگیاں تو بہت ہوئی ہیں مگر منظم نہیں تھیں گویا کہ دھاندلی کرنے کے لئے کوئی پاسنگ آئوٹ پریڈ کرنا ہوتی ہے۔
Panama Leaks
حضور اگر الیکشن کمیشن کو سزا دی جاتی کہ تم نے تھیلے سنبھالے کیوں نہیں؟پھر تو بات بنتی لیکن اسے کچھ بھی نہ کہا گیا اور کروڑوں روپے ڈار کے لگوا کر انہیں بے نیل و مرام واپس بھیج دیا گیا تو یہ فیصلہ بھی ماضی میں کئے گئے مشکوک فیصلوں کے کھاتے میں لکھا جائے گا۔میں تو ہین کا مرتکب نہیں ہو رہا اس لئے کہ میں اسے من و عن مانتا ہوں۔یہ تو ایسے بھی ہے کہ مارے بھی تو اور رونے بھی نے دے۔ہائے ہائے ہال پیریا کرنا تو میرا حق بنتا ہے۔
رہی بات پانامہ لیکس کی !دوستو پانامہ ایک ملک کا نام ہے جس سے کوئی بھی شواہد ہماری حکومت تک نہیں لے سکتی اس لئے کہ ان ممالک میں حرام حلال کوئی چیز نہیں اور نہ ہی ان کا پاکستان حکومت سے معاہدہ ہے کہ معلومات کا تبادلہ کریں۔دوسری بات یہ دنیا کے نامور صحافیوں کی تحقیق ہے۔جو جرم کا اشتہار ہے الزامات کا پلندہ نہیں۔یہی چیز حامد خان نے پیش کی ہے۔کچھ دوست اسد کھرل،شیخ رشید کے بیانات کی بات کرتے ہیں وہ اپنی جگہ مگر حامد خان نے کسی جگہ نالائقی اور سستی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ایک صاحب عبدالحفیظ پیرزادہ مرحوم پر الزام ڈال رہے تھے۔
بھائیو آپ کا سابقہ مہا کرپٹ لوگوں سے پڑا ہے یہاں جو کچھ بھی ہوناہے یہ اس بات پر منحصر ہے کہ آپ کے ساتھ جو کرنا ہے اسے طے کس نے کیا ہے۔زمینی خدا کہاں ہیں؟ان کی خواہش کیا ہے؟اگر انہیں نواز شریف وارا کھاتا ہے وہ رہے گا۔نہیں بھائو تائو میں آتا توجا کر رہے گا۔آپ کے سامنے کی بات ہے زرداری دنیائے کرپشن کا شہنشاہ کیسے دانت نکالتے ہوئے دبئی چلا گیا؟ڈاکٹر عاصم کیسے باہر آ گیا،وسیم اختر میئر کی سیٹ پر آن پہنچا، ایان علی ایمان علی بن گئی۔آپ اس کھوتے کی بات کریں جس پر سے گرتے ہیںکمہار پر غصہ نہ کریں۔