تحریر : عمران احمد راجپوت جانور کو مار نے کے لیے جانور بننا پڑتا ہے بابو جی ۔۔میں کہتا ہوں اپنی بکواس بند کرو اپنا فلسفہ اپنے پاس رکھوتم نے میرا نام میری عزت سب مٹی میںملادی میں پوچھتا ہوں آخر تم چاہتے کیا ہو کیوں ہماری برسوں کی بنائی عزت کو خاک میں ملا رہے ہو۔ میں پوچھتا ہوںکیا ضرورت تھی تمھیں گلی کے غنڈوں سے جھگڑنے کی ارے وہ تو جانور ہیںگلی محلے کے غنڈے ہیں تم ان کے منہ لگ کر کیا ثابت کرناچاہتے ہو۔میں مانتا ہوں وہ جانور ہیں وحشی ہیں لیکن کیا تم بھی اُنہی کی روش اپناتے ہوئے ان کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کروگے ۔؟میں پوچھتا ہوں کیا تم نے ٹھیکا لے رکھا ہے سماج کو سدھارنے کا کیاتم خود کو مہاتما گاندھی سمجھتے ہویا راجہ چندر بوش کی اولاد۔ارے سچ تو یہ ہے کہ تم میں اور اُن گلی کے غنڈوں میں کوئی فرق نہیں ہے تم بھی اُنہی جیسے ہو۔ آخر میں نے تمھاری پرورش میںکس چیز کی کمی چھوڑی تھی۔۔؟ اچھا مستقبل دینا چاہا تمھیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا تمھارے پڑھانے لکھانے میںکسی قسم کی کوئی قصرنہ چھوڑی پھر بھی تم میرا نام ڈبونے میں صبح شام لگے رہتے ہوعلاقے کا ہر فرد تمھارے بارے میں بری رائے رکھتا ہے
تم سے نفرت کرتاہے تم سے ڈرتا ہے میںتمھاری وجہ سے نظراٹھا کر چل نہیں سکتا لوگ کیا سوچتے ہونگے کہ جواسکول ماسٹر ساری زندگی لوگوں کو شرافت کی تعلیم دیتا آیا آج اسکی خود کی اولاد کس قدر معاشرے میں برائی کا سبب بنی ہوئی ہے میںکہتا ہوں چلے جائو یہاں سے نکل جائو میرے گھر سے آج سے تمھارے اور میرے راستے جدا ہیں۔ قارئین باپ بیٹے کے درمیان یہ تکرار مشہور ہندی فلم ضدی کے ایک سین میں فلمائے گئے کی ہے جس میں ایک طرف ایک سیدھا سادہ زندگی گزارنے والا اسکول ماسٹر ہے
دوسری طرف بدمعاشی اور لاقانونیت میں گھرا سسٹم کے خلاف اُٹھنے والا اُس کا اپنا بیٹا ہے۔اِسی طرح کے یا اِس سے ملتے جلتے سین آپ نے اکثر فلموں میں دیکھے ہونگے جس میں باپ اور بیٹے کو ایک الگ الگ سوچ کے ساتھ ایک دوسرے سے متضاد دکھایا جاتا ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ باپ اور بیٹے کے اِس فکری اختلاف کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے معاشرے میں موجودباطل پرست کس طرح اپنے عزائم کو عملی جامہ پہنا کر حق کو شکست دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اپنے لختِ جگر کی ہر بات کو دل ہی دل میں درست مان کر بھی اپنے موقف پر ڈٹے رہنا باپ کی مجبوری بن جاتی ہے حالانکہ وہ زمانے میں موجود برائیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوتا ہے لیکن وہ سب کچھ دیکھ کر بھی اپنی آنکھیںبند رکھنا چاہتا ہے
Life
کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ اُس کی زندگی میں کوئی مشکل نہ آئے وہ ایک عام اور سادہ زندگی گزار کر خود کو اور اپنی فیملی کو زمانے کی نگاہوں سے اوجھل رکھ کر ایک کامیاب زندگی گزارنے کا دعوہ کرسکے اُسے اِس سسٹم سے کچھ لینا دینا نہیں اُسے بس دو وقت کی روٹی تن پر پہننے کو کپڑا اور عزت چاہیئے ہوتی ہے جو اُس کی زندگی کا مقصدِ حیات ہے ۔بیٹا باپ کی اِس بات سے اختلاف کرتا ہے وہ زمانے میں جینا چاہتا ہے زمانے کے ساتھ جینا چاہتا ہے اپنا حق لینا چاہتا ہے وہ برائی کو اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا نہیں دیکھ سکتا وہ ظلم کو برداشت نہیں کرسکتا
وہ صرف زمین پر سانس لیتا چلتا پھرتا انسانی مجسمہ نہیں بن سکتاوہ ایک مکمل انسان بن کر دنیا میں انسانیت قائم کرنا چاہتا ہے وہ اپنا اور چار دیواری کا تحفظ نہیں سارے عالم کا تحفظ چاہتا ہے اِس لئے وہ سسٹم کے خلاف درندہ اور درندگی کے خاتمے کا عزم لیکر اُ ٹھ کھڑا ہوتا ہے اکثریت سے ٹکر لے بیٹھتا ہے لہذا مجرم گردانہ جاتا ہے لعنتوں ملامتوں کے طوق اُس کے گلے میں ڈال دیئے جاتے ہیں سارا زمانہ اُس کے خون کا پیاسا بن بیٹھتا ہے۔ نتیجہ وہ ظلم و ناانصافی کے گرد آلود معاشرے میں تنہا اور اکیلا کھڑا رہے جاتا ہے باطل پرست اُس کے خون کے پیاسے ہوجاتے ہیں
موت اُسے گلے لگانے کو تیار ہوتی ہے ایسے میں باپ جوساری زندگی شرافت کا درس دیتا آیا تھاجو ظلم وناانصافی سے بنے سسٹم سے آنکھیں موندے پڑا تھا جب اپنے خود کے بیٹے کو موت کی آغوش میں جاتا دیکھتا ہے تو ہتھیار اُٹھا کر باطل پرستوں کو اُن کے انجام تک پہنچا تا ہے اپنے بیٹے کے جسم میں ایک نئی زندگی پھونک دیتا ہے اور آخربیٹے سے کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے جانور کو مارنے کے لئے جانور بننا پڑتا ہے۔۔۔!