تحریر : روہیل اکبر پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ میچ شروع ہونے سے قبل لاہور، کراچی،فیصل آباد اور ملک کے دوسرے شہروں کے جانوروں جن میں طوطا شریف ،گدھا شریف ،زرافہ شریف،بندر شریف اور چڑیا گھر کے متعدد جانوروں نے جیتنے کی پشین گوئی کردی تھی مگر بدقسمتی ہماری کرکٹ ٹیم کے آڑے آئی اور جانوروں کی محنت رنگ نہ لاسکی ہمارے صحافی دوستوں نے تو اپنے طور پر بہت کوشش کی کہ شائد بندر کی دوڑ باگ ہی کام کرجائے مگر ہمارے کھلاڑیوں کو اپنی ہار کا اس قدر یقین تھا کہ انہوں نے انکی جیت کی پشین گوئی کرنے والے جانوروں کی بھی لاج نہ رکھی اگر موجودہ حالات میں دیکھا جائے تو پاکستانی کرکٹ ٹیم پاکستان کی کرکٹ کی تاریخ کی کمزور ترین ٹیم ہے.
ہماری ٹیم پہلے صرف پانچ اوورز کی ٹیم ہے اس میں کوئی وکٹ لے لی تو یہ پورا میچ لڑ کر کھیلیں گے اور اگر یہ وکٹ حاصل نہ کرسکے تو ان کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں ان سے گیند پکڑی جاتی ہے اور نا ہی بالنگ ہوتی ہے یہ ہماری کرکٹ ٹیم کا ہی حال نہیں ہے بلکہ ملک کے تمام ادارے اس وقت اسی صورتحال سے دوچار ہیں حکومت نے چن چن کر ایسے افراد کو مختلف اداروں کا سربراہ لگا رکھا ہے جو خود اپنا وزن برداشت نہیں کرسکتے اور جو کام کرنے والے ہیں انہیں حکومت نے کھڈے لائن لگارکھا ہے اس وقت کرکٹ کے بہترین کھلاڑی وسیم اکرم ،شعیب اختر اور شاہد آفریدی مختلف ٹیلی ویژن چینلز پر رمضان المبارک کے پروگراموں کی میزبانی کرتے ہوئے نظر آئیں گے جبکہ ایک صحافی پی سی بی کی سربراہی کررہا ہے یہی وجہ ہے کہ ہماری ہماری کرکٹ اب صرف پی ایس ایل تک محدود رہ گئی ہے اور بین الاقوامی کرکٹ اب ہمارے بس کا کھیل نظر نہیں آتی ہار جیت کھیل کا حصہ ہوتی ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں مگر ہار بھی تو کھیل کر ہوتی ہے جس میں جان ماری جاتی ہے مگر یہاں پر تو سفارشیوں کی ایک لمبی قطار لگی ہوئی ہے۔
پی سی بی میں بھی درجنوں ایسے افراد موجود ہیں جن کا کرکٹ کے ساتھ دور دور کا بھی رشتہ نہیں ہے مگر وہ بیٹھے مراعات لے رہے ہیں کیونکہ جب کسی ادارے کا سربراہ کمزور اور ناتجربہ کار ہوگا تو پھر اس ادارے کو تباہی اور بربادی سے کوئی روک نہیں سکے موجودہ حکومت نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ملک کے اداروں کو تباہ کردیا ہے ہمارے اکثر اداروں کے سربراہان اپنے کام سے واقف ہی نہیں ہے جونیئر افسران کو اعلی عہدوں پر تعینات کررکھا ہے جو صرف حکمرانوں کی سنتے ہیں اور انکی خوشنودی کے لیے ہر جائز اور ناجائز کام کرنے میں مہارت رکھتے ہیں صبح سے شام تک حکمرانوں کی آؤ بھگت میں مصروف رہنے والے اپنے دفتر میں بھی کم ہی بیٹھتے ہیں اور انہوں نے اپنے نیچے بھی ایسے افراد کو اہم ذمہ داریاں دے رکھی ہوتی ہیں جو کبھی بھی اچھی شہرت نہیں رکھتے بلکہ اکثر تو ایسے افراد بھی ہیں جن پر انٹی کرپشن نے کرپشن کے مقدمات درج کررکھے ہیں ایسے میں جب بھی کرکٹ سمیت کوئی بھی معاملہ درپیش ہوگا تو پھر جانوروں سے ہی رہنمائی لی جائے گی کہ ہماری ہار ہوگی یاجیت جبکہ دوسری طرف ڈان لیکس کے بعد تصویر لیکس کا بھی ایک نیا اسکینڈل سامنے آگیا ہے۔
گذشتہ رات گئے سوشل میڈیااور پھر الیکٹرانک میڈیا پر ایک تصویر نمودار ہوئی جس کے بارے میں یہ کہا گیا کہ یہ تصویر حسین نواز کی ہے جو کہ جوڈیشل اکیڈمی اسلام آباد میں جی آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کے لیے ایک کمرے میں بیٹھے ہیں تصویر کے آتے ہی سوشل میڈیا پر ایک ہنگامہ بپا ہوگیاتمام صحافی اور تجزیہ نگاروں حیران تھے کہ اتنی حساس نوعیت کے معاملے میں اتنی بڑی کوتاہی کس نے کی اور کیوں کی ؟اس تصویر کے لیکس ہونے کے بعد ن لیگ سوشل میڈیا نے یہ تاثر دینا شروع کیا کہ عدالت اور جی آئی ٹی جانبدار ہوگئی ہے اور اس تصویر کو لیکس کرکے شریف فیملی کی تضحیک کی گئی ہے۔
اب آتے ہیں اس سوال پر کہ یہ تصویر لیکس کیسے ہوئی ؟ یہ تصویر سی سی ٹی وی کیمرے کی ہے یہ کیمرہ جوڈیشل اکیڈمی کے کمرے میں لگا ہوا ہے اس کیمرے سے بنی تمام وڈیوز جوڈیشل اکیڈمی میں محفوظ ہے اور اس تک رسائی جی آئی ٹی کے ممبران اور وزارت داخلہ کے علاوہ اور کسی کی نہیں ہے اب یہ تصویرکس سورس سے لیک ہوئی ہے اسکی تحقیقات ہونی چاہیے اس تصویر کے بعدجے آئی ٹی کے لیے کام کو اس تیزی سے جاری رکھنا شاید اب ممکن نہ ہو اب اس تصویر لیکس کے حوالے سے جواب دینا ہوگا بہرحال اس کی ذمہ داری جن پر عائد ہوتی ہے انہیں اسکا جواب دینا ہوگاکیونکہ اب اس سارے معاملے میں معاملات میں مزید پیچیدہ ہوجائیں گے ہماری سیاست میں عجب معاملات چل رہے ہیں ابھی ایک کمیٹی کی رپورٹ آتی نہیں اسی دوران دوسری کمیٹی بنانے کی تیاریاں مکمل کرلی جاتی ہے اس سلسلہ میں فائدہ لا محالہ انہیں پہنچے گا جن پر الزامات ہیں۔