تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا ہم کیسے انسان ہیں ؟ ہمارا معاشرہ انسانی ہے یا حیوانی ؟۔ سچا اور پکا مسلمان وہ ہی ہے جس میں انسانیت ہے۔ اللہ کے ولیوں کی مقدس سرزمین ” قصور ” ہے یہ وہ ہی قصور ہے جہاں اللہ والے کافروں مشرکوں اور منافقوں کو انسانیت کے اعلیٰ درجہ کی تعلیم ” اسلام ” سے روشناس کروا کر سچا اور پکا مسلمان کرتے تھے۔ قصور کا شہر ادب کے ساتھ محبت کا پیکر تھا۔ملکہ ترنم نور جہاں کا شہر قصور گزشتہ کچھ سالوں سے ” حوانیت درندگی کے سبب خبروں کی زینت بنا ہوا ہے۔ افسوس اسی پاک زمین میں ایک ”درندے نے ” معصوم پری ” کو بے دردری اپنی ہوس کا نشانہ بناہ کربے رحمی سے قتل کر کے لاش ” گندگی کے ڈھیر ” میں پھینک دی گی تھی!درندگی اور بربریت کا شکار ہونے والی معصوم کائنات امین کے والدین اللہ کے گھر عمرے کی ادائگی کے لیے گئے تھے۔ ان کو کیا خبر تھی؟ کہ وہ اپنی معصوم بچی کو اس وحشی جانوروں کے شہر میں چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ان کو اپنی بچی کے ساتھ ہونے والے سانحے کی اطلاع اللہ کے گھر ہی میں ملی کتنا تڑپی ہو گی زینب کی ماں اللہ کے گھر کے سامنے،اس کی فریاد اس کے آنسو اللہ کے گھر کے سامنے جب بہے ہوں گے ۔کیا یہ خدائی عذاب کو ” دعوت ” نہیں۔
خانہ خدا سے واپسی پر ذینب امین نے اپنی اس معصوم بچی کی لاش دیکھی ہو گی تو کیا گزری ہو گی ان کے دلوں پر۔ کتنی تڑپی ہو گی معصوم زینب جب ان وحشی درندوں نے اس کے جسم سے اس کا لباس نوچ ڈالا ہو گا۔اس معصوم کو کیا خبر کہ یہ وحشی جانور اس کے جسم سے اپنی کون سے آگ بجھانا چاہ رہے ہیں۔ایسے جنسی بیمار افراد پیدا کر دیے ہیں جو کہ اپنی جنسی وحشت کی تکمیل کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔ان وحشی درندوں کی نظر میں انسانی جان اور معصومیت کی کوئی قیمت نہیں ہوتی ہے۔۔معصوم بچی وہ پھول تھا جس کو جوانی کیا چیز ہوتی ہے اس کا خیال تک نہ تھا اس کی معصومیت اس کا کمسن پن ان درندوں کی بربریت کا شکار ہو کر جب کملایا ہو گا تو قصور کی زمین کانپ گئی ہو گی۔
کچھ نام نہاد دانشور کہتے ہیں کہ جب ہر انسان کے موبائل میں ننگی اور فحش ویڈیوز موجود ہوں گی تو ان کی شہوت کے تقاضے بھی ان کو دیکھ دیکھ کر بڑھ جائیں گے پھر وہ اس کی تکمیل کے لیے جائز اور ناجائز ہر ہتھکنڈے کا استعمال کریں گے۔کچھ لوگوں کا کہنا ہے عورت کا مطلب ” پردہ ” ہے اگر عورتیں پردے کریں تو ایسے ” جنسی درندگی ” کے واقعات نہ ہوں ۔ حالانکہ اصل وجہ ” ہماری بے حسی، لاقانونیت ہے ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ قصور میں ہونے والا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے گزشتہ ایک سال میں دس بچیاں اس سے قبل بھی اسی وحشت اور بربریت کا شکار ہو چکی ہیں جن کی عمریں پانچ سال سے دس سال کے درمیان تھیں۔ان سب کو اسی طرح جنسی زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا ہے مگر اس سب کے باوجود کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ یہ درندہ وہ جانور ہے جس کو خنزیر کہتے ہے۔ ایک خنزیر کے ہاتھوں ایک بچی اپنی عزت اور زندگی ہار گئی ….دل پھٹ کر رہ گیا ہے! کیا حرامی گدھ جو اپنا غلیظ شوق لیئے گلی گلی، نکڑ نکڑ کونے کونے میں معصوم بچے اور عورتیں شکار کرنے کو نظریں گاڑے بیٹھے ہوتے ہیں.
کیوں یہ پولس کے ہتھے نہیں چڑھتے؟آج انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے ” معصوم پھولوں کے قاتل کے پاس کوئی جن ہے جو پولیس اور خفیہ ایجنسیوں ڈھونڈنے میں بے بس ہے! کیا پہلے کی طرح زبانی جمع تفریق ہوگی؟ کاش ان وارداتوں پر سوو موٹو ایکشن ہو؟ کیا جب تک خدانخواستہ کسی جرنیل اور کرنل کی بچی کا معصوم جسم نوچ کر، زیادتی کر کے، توڑ موڑ کر کسی کچرے کے ڈھیر پر نہیں مل جاتا تب تک کوء پاکستانی قانون حرکت میں نہیں آئے گا ؟ انصاف کب ہو گا۔؟۔
ایسے شیطانی اور حیوانی واقعات کی روک تھام کے لئے ضروری ہے ، والدین میں آگاہی دی جائے ۔بچوں پر کڑی نظر رکھی جائے، جب بھی اس قسم کے احساس واقعات رونما ہوں تو افسران اپنی بیٹی تصور کریں ۔ اس میں کوئی شک نہیں ایسے واقعات سے بچاؤ کے لئے ” میڈیا ” کو بھی اپنا مثبت رول ادا کرنا ہوگا۔ ایسے ہوس کے پجاریوں کو نفساتی مریض سمجھا جائے اور یہ انسانیت کے نام پر دھبہ اس وقت ختم ہوگا جب پولیس کو سیاست سے پاک کیا جائے ،اور ایسے درندوں کو سرعام پھانسی دی جائے تا کہ عبرت ہواگر ایسا نہ کیا گیا تو خدا کی پکڑ سے بچنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو جائے گا۔