اسلام دین رحمت ہے، اس کی رحمت انسان کی حد تک محدود نہیں ہے، بلکہ ہر ذی روح پر محیط ہے۔ اس کے ابر کرم نے جہاں عالم انسانیت کو سیر اب کیا ہے، وہیں بے زبان جانوروں کو بھی اپنی رحمت بے کراں سے مالا مال فرمایا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ جانوروں کے ساتھ حسن سلوک پر اجر وثواب کی خوشخبری بھی سنائی گئی۔ ایک صحابی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کرتے ہیں کہ میں نے بطور خاص اپنے اونٹوں کے لیے ایک حوض بنا رکھا ہے، اس پر بسا اوقات بھولے بھٹکے جانور بھی آ جاتے ہیں، اگر میں انہیں بھی سیراب کر دوں تو کیا اس پر بھی مجھے ثواب ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآ وسلم نے فرمایا : ”(ہاں ) ہر پیاسے یا ذی روح کے ساتھ حسن سلوک کرنے سے ثواب ملتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ، حدیث:3686) اسلام نے جانوروں کو بھی چین سے جینے کا حق دیا ہے۔
اس کی اصولی تعلیم یہ ہے کہ نہ خود تکلیف اٹھائو اور نہ ہی دوسروں کو تکلیف پہنچائو: ”لا ضرر ولا ضرار” (ابن ماجہ :340) دوسروں کو تکلیف دینا چاہے وہ جانور ہی کیوں نہ ہو اسلام کے نزدیک درست نہیں ہے۔ حضرت ربیع بن مسعود فرماتے ہیں کہ ایک سفرمیں ہم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے۔ آپ اپنی حاجت کے لیے باہر تشریف لے گئے۔ ہم نے ایک سرخ پرندہ دیکھا جس کے ساتھ اس کے دوبچے بھی تھے۔
ہم نے ان بچوں کو پکڑ لیا، تو وہ فرط غم سے ان کے گرد منڈلانے لگا۔ اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے توآپ نے فرمایا :اس پرندے سے اس کے بچوں کو چھین کر کس نے اسے رنج پہنچایا؟ اس کے بچوں کو لوٹا دو، اس کے بچوں کو لوٹا دو۔ (ابودائود:2675)۔ بعض روایتوں سے یہ بھی معلوم ہو تا ہے کہ جو جانور انسانوں کے لیے فائدہ پہنچاتا ہے اس کی قدر کی جانی چاہیے۔جانوروں کے ساتھ حسن سلوک اور انصاف پسندی کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس جانور کو جس مقصد کے لیے پیدا کیا ہے اس سے وہی کا م لیا جائے ، اس سے ہٹ کر اگر کو ئی شخص اس سے دوسرا کام لیتا ہے تو یہ اس کے ساتھ زیادتی ہے۔ مثلاً: اللہ نے بیل کو کھیتی باڑی کے لیے پیدا کیا ہے۔ اگر کوئی اس سے گدھے کی طرح بوجھ ڈھونے کا کام لیتا ہے تو اسلام کے نزدیک یہ ظلم ہے۔ ایک مر تبہ رسول اکر مۖ نے فرمایا :”اپنے جانوروں کی پیٹھ کومنبر نہ بنائو(یعنی جانورسے اسٹیج کا کام نہ لو) ، اللہ نے انہیں تمہارا فرماں بردار صرف اس لیے بنا یا ہے کہ وہ تم کو ایسے مقامات پر آسانی سے پہنچا دیں جہاں تم بڑی مشقت سے پہنچ سکتے تھے۔ تمہارے لیے اللہ نے زمین کو پیدا کیا ہے، اپنی ضرورتیں اس سے پوری کرو”۔ (ابودائود:2567)۔ جن جانوروں سے خدمت لی جاتی ہے،یا جن سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے ، ان کے تعلق سے اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ ان کے آرام و راحت کا پورا پورا خیال رکھا جائے، انہیں بر وقت کھلا یا پلایا جائے۔
Prophet Muhammad (P.B.U.H)
اگر وہ بیمارہوں تو ان کا علاج معالجہ کر ایا جائے، ان سے تکلیف کی حالت میں کام نہ لیا جائے، ان کے رہنے سہنے کا مناسب بندوبست کیا جائے اور ان سے اتنا ہی کام لیا جائے جس کے وہ متحمل ہوں، ان سے اس وقت تک کام لینا جب تک کہ وہ بری طرح تھک کرآگے کام کرنے کے لائق نہ رہ جائیں ، یا ان کی حالت قابل رحم ہونے کے باوجود مارمار کر ان سے کام لینا، یا انہیں بھو کا پیاسا رکھ کر کام لینا یہ سراسر ظلم ہے۔ ایک اور موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اونٹ کو دیکھا جس کی پیٹھ اس کے پیٹ سے لگی ہوئی تھی۔ آپ نے فرمایا”ان بے زبان جانور وں کے معاملے میں اللہ سے خوف کھائوان پر ایسی حالت میں سواری کر و جب کہ یہ اس کے قابل اور صحت مندہوں اور انہیں اچھی حالت ہی میں (تھک کر چور ہونے سے پہلے ) چھوڑو”۔ جس طرح اپنے ماتحت انسانوں کو بھوکا پیاسا رکھنا گنا ہ ہے ، اسی طریقے سے جانوروں کو بھوکا پیاسا رکھنا گنا ہ ہے اور یہ سنگ دلی اسے جہنم تک پہنچا سکتی ہے، جیساکہ حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖنے فرمایا ”ایک عورت ایک بلی کی وجہ سے جہنم میں ڈالی گئی ، اس نے اسے باندھ رکھا تھا۔ نہ تو اس نے اسے کچھ کھانے کو دیا اور نہ اسے آزاد کیا کہ وہ (چل پھر کر) حشرات الارض میںسے کچھ کھا لیتی۔ چہر ہ جسم کا نہایت لطیف اور حساس مقام ہے۔
اس عضو کو پہنچنے والی معمولی اذیت بھی بے حد تکلیف دہ ہوتی ہے۔ اہل عرب چوپایوں کے چہروں پر داغ لگاتے تھے اور بسا اوقات چہروں پر مار بھی دیا کرتے تھے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سنگ دلی کو دیکھا تو سختی سے روکا۔ (ابودائود:2564) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چہرے پر مارنے اور اسے داغ دینے سے سختی کے ساتھ منع فرمایا۔ (مسلم:5551)۔ حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گزر ایک دفعہ ایک گدھی کے پاس سے ہوا جس کے چہرے کو داغا گیا تھا۔ آپ نے دیکھا تو فرمایا :اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جس نے اسے داغا ہے۔ (مسلم:5552)۔ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کے ساتھ کسی سفر کے پڑائو میں تھے۔
آپ ضرورت سے کہیں تشریف لے گئے تھے، جب واپس آئے تو دیکھا کہ ایک صاحب نے اپنا چولہا ایسی جگہ جلایا ہے جہاں زمین میں چیونٹیوں کا بل تھا۔ یہ دیکھ کر آپ نے پوچھا ‘ یہ چو لہا یہاںکس نے جلایا ہے۔ ان صاحب نے کہا : یا رسول اللہ ! میں نے !آ پ نے فرمایا ‘اسے بجھائو، اسے بجھائو'(ابودائود:2675)(غرض یہ تھی کہ ان چیونٹیوں کو تکلیف نہ ہو اور کہیں وہ جل نہ جائیں۔ عربوں کا ایک دلچسپ مشغلہ تھا کہ وہ جانوروں کوآپس میں لڑاتے اور اس تماشے سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ا س میں جانور گھائل اور زخمی ہو کر بے حد تکلیف اٹھاتے تھے۔
رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس درندگی کو دیکھا تو سختی کے ساتھ اس سے روکا ہے۔ (ابودائود:2562 ) اسلام میں جانوروں کے حقوق کے سلسلے میں یہ واضح تعلیمات تھیں ، جن سے یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ اسلام نے جانوروں کو کس قدر ہمدردی کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ بقول مولانا سید سلیمان ندوی : ”ان تعلیمات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام کے سینہ میں جو دل ہے وہ کتنا نرم اور کس قدر رحم و کرم سے بھرا ہوا ہے۔ دنیا کو سب سے پہلے ”حقوق حیوان ” سے آشنا کرنے والا ”اسلام” ہی تھا، ورنہ اس سے پہلے ”حقوق حیواں” کا تصور دنیا میں نہیں تھا۔ ہو بھی کیسے سکتا تھا؟ جس دنیا میں”حقوق انسان” ہی کے لالے پڑے ہوں وہاں ”حقوق حیوان ”کا تصور ناممکن ہی تو تھا۔ ان حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کے نام لیوا اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کو دنیا کے روبرو پیش کر یں اور اس کا بے داغ اور صاف وشفاف آئینہ دنیا کے سامنے رکھ دیں، کہ دنیا اس کی امن پسند تعلیمات کا مشاہدہ کر سکے۔
M.A.TABASSUM
تحریر: ایم اے تبسم (لاہور) مرکزی صدر،کالمسٹ کونسل آف پاکستان”CCP” email: matabassum81@gmail.com, 0300-4709102