تحریر: انجم صحرائی الحمد للہ گذرے رمضان میں عمرہ اور اعتکاف کی سعادت حاصل ہوئی۔ یہ میرا دوسرا عمرہ اور مسجد نبوی میں پہلا اعتکاف تھا۔ دو سال قبل جب مجھے عمرہ کی ادائیگی کا موقع ملا تب میں نے سعودی عرب سے واپس آکر اپنے اس سفر کو قلمبند کرنے کی کو شش کی۔” خدا کے گھر میں” کے عنوان سے میرے شائد دو یا تین کالم شائع بھی ہوئے مگر میں یہ سفر نامہ لاہور ایئر پورٹ سے آگے نہ لکھ پایا وجہ یہ نہیں تھی کہ میں نے لکھنے کی کو شش نہیں کی میں نے کوشش کی سچی بات میں نے بہت کو شش کی کہ میں اس سفر میں پیش آ نے والے احساسات اور کیفیات کو لفظوں کی زبان دے سکوں مگر یہ بہت مشکل تھا اور مجھ سے یہ نہ ہو سکا۔ اس بار بھی یہی مسئلہ در پیش ہے جب سے آیا ہوں کاغذ قلم لئے لفظ تلاش کر رہا ہوں مگر ایسا لگتا ہے کہ سارے لفظ اور سارے حرف دم توڑ چکے ہوں یقینا میں گذری ان عجیب اور عظیم ساعتوں کو لفظوں کا روپ نہیں دے سکوں گا جنہیں صرف محسو س کیا جا سکتا ہے۔
بیان نہیں کیا جا سکتا میں مطاف اور حرم نبوی میں گذارے ان لمحوں کا احاطہ نہیں کر سکوں گا جن لمحوں کی آ شنائی بندے کی روح اور وجود کو اپنا اسیر و مطیع بنا کر آنکھوں سے سیل رواں کر دیتی ہے ہوتا یہ ہے کہ بندہ دنیا و مافیہا سے بے خبر بس اپنی ہی فکر میں مبتلا بس اپنی ہی معافی اور تلافی کے غم میں غلطاں رب کی بار گاہ میں دہا ئیاں دے رہا ہو تا ہے۔ اپنے رب ، اپنے مالک اور اپنے خالق کے آگے خالی دامن پھیلائے مغفرت اور بخشش کی امید لئے لاکھوں انسانوں کے بند ہو نٹوں سے نکلنے والی گھٹی گھٹی سسکیوں سے فضا میں پیدا ہو نے والا ارتعاش روح اور وجود میں جو ہیجان پیدا کر تا ہے اس کی شدت اور لذت کو محسوس کیا جا سکتا ہے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ شب کے آخری پہر میں پڑھی جانے والی نماز قیام الیل سے بندے روح جبھی استفادہ کر سکتی ہے جب بندے کا وجود خود قیام ا لیل میں شریک سجود و قیام ہو۔
دعا کیجئے کہ اللہ کریم اپنی بارگاہ میں ہماری حا ضری قبول فرما لے اپنے محبوب کی شفاعت ہمارا مقدر کر دے اور ہمیں معاف کر دے اگر ایسا ہو گیا تو یہ بس اسی کا فضل اور اسی کا کرم ہو گا ورنہ ہم تو تہی دامن ہیں اور اس خالی دامن میں سوائے رسوا ئیوں کی دا ستا نوں کے کچھ بھی تو نہیں…. جسے چاہا در پہ بلا لیا جسے چاہا اپنا بنا لیا یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے یہ بڑے نصیب کی بات ہے سعودی عرب کے لئے ملتان سے ریاض کا سفر ہم نے فلائی دو بئی سے کیا ۔دوبئی انٹر نیشنل ایئر پورٹ سے اڑنے والا طیارہ ٹھیک ڈیڑھ گھنٹے بعد ایئر پورٹ پر لینڈ کر نے کے لئے بادلوں سے بھی اوپر ہزاروں فٹ کی بلندی سے آ ہستہ آ ہستہ نیچے کی طرف جا رہا تھا۔
Prince Alwaleed bin Talal
جہاز کی کھڑ کی سے میں نے نیچے نظر ڈالی تو مجھے زمین کا چہرہ اربوں سال بوڑھی اس ماں کا سا لگا جس کے چہرے کی جھریوں میں زمانوں کی تلخیاں چھپی ہوں۔ زمین پر بنائے گئے بڑے بڑے محلات اور آ سمانوں سے با تیں کرتے مال اور پلازے اوپر کی بلندی سے یوں لگ رہے تھے جیسے ماں دھرتی کا چہرہ کالی ماتا نے سیاہ اور داغدار کر رکھا ہوں یقین کریں آ سمان کی بلندی سے یہ خوبصورت زمین ایسی ہی نظر آ تی ہے ۔چند دن ریاض گذارنے کے بعد ہم عمرہ کے لئے مکہ مکر مہ روا نہ ہو رہے تھے جدہ ایئرپورٹ سے مکہ مکرمہ جاتے ہوئے جب میں خوابوں اور خیالوں میں کھویا ہوا تھا نعمان فرنٹ سیٹ سے میری جانب مڑتے ہوئے بو لے ” زبردست “میں نے استہفا میہ نظروں سے دیکھا تو کہنے لگے سعودی پرنس الولید بن طلال نے اپنی دولت میں سے 32 بلین ڈالر چیئر ٹی کے لئے وقف کر نے کا اعلان کیا ہے خبر کچھ یوں تھی۔۔
Saudi Arabian billionaire Prince Alwaleed bin Talal has said he will donate his $32bn (£20bn; €29bn) personal fortune to charity The 60-year-old nephew of King Salman is one of the world’s richest people.He said he had been inspired by the Gates Foundation, set up by Bill and Melinda Gates in 1997.The money would be used to “foster cultural understanding”, “empower women”, and “provide vital disaster relief”, among other things, he said.Mr Gates praised the decision, calling it an “inspiration to all of us working in philanthropy around the world Prince Alwaleed is at number 34 on the Forbes list of the world’s richest people.The money will go to the prince’s charitable organisation, Alwaleed Philanthropies, to which he has already donated $3.5bn.The prince, who does not hold an official government position, is chairman of investment firm Kingdom Holding Company.
یہ خبر میرے لئے ایک بڑی اہمیت کی خبر تھی وہ اس لئے کہ ابھی تک چیئر ٹی کے میدان میں جو بڑے اور نما یاں نام تھے ان میں کو ئی بھی شخصیت ایسی نہیں تھی جو مسلمان ہوایسے میں ایک مسلمان شہزادے کی جانب سے چیئرٹی کے لئے دولت وقف کر نے کا اتنا بڑا اعلان نہ صرف میرے لئے بلکہ پوری امت مسلمہ کے لئے فخرو اعزاز کی بات ہے ۔ ایک ورلڈ رپورٹ کے مطا بق پرنس الولید بن طلال دنیا کے دولت مند ترین افراد کی لسٹ میں 22.6 بلین ڈالر کے ساتھ 34 نمبر پر ہیں جب کہ world’s biggest charity donors میں پرنس الولیدبن طلال کا پہلا نمبر ہے۔
Eatkaf in Masjad Nabvi
حرم نبوی میں اعتکاف کے دوران ملنے والے دوستوں میں مراکو (مراکش ) سے آئے ہوئے براہیم (Brahim Nagahm ) اور ان کے ساتھیوں عبد الحق ، العالمی ، حسن بن محمد ، جمیل ، مجیب ، اسامہ اور عثمان سے بھی ملاقاتیں خوب رہیں۔ براہیم کو تلاوت قرآن مجید میں ایک کمال حاصل ہے اللہ کریم نے انہیں قرات کے لئے خوبصورت آوازسے نوازا ہے ہر روز افطار سے قبل براہیم کی سوزو گداز میں ڈوبی ہو ئی تلاوت اور رقت انگیز دعا ایک نہ بھو لنے والا واقعہ ہے اس محفل قرات میں لیہ کے ڈاکٹر اشتیاق ۔ میاں نور الہی ایڈووکیٹ اور چو ہدری طاہر ایڈ وو کیٹ فیصل آباد کے محمد افضل چیمہ ، محمد اقبال اور بہت سے پا کستانی بھی شریک ہو ئے ، مراکش سے اعتکاف کے لئے آ ئے ہو ئے یہ لوگ عبد السلام یسین شیخ کی جماعت العدل و الاحسان کے لوگ تھے شیخ یسین جنہیں یہ لوگ شیخ کبیر کے نام سے پکارتے ہیں بنیادی طور پر استاد تھے جنہوں نے 34 کتب تصنیف کیںعدل و ا حسان کے نام سے بھی ایک کتاب شیخ یسین نے تصنیف کی تحریک عدل و احسان اسی کتاب میں دئے گئے فلسفہ اور راہنما اصولوں کے تحت ایک پر امن جدو جہد کے ذر یعے دنیا میں خلافت کے نظام کے قیام کی جدو جہد کرنے میں مصروف ہیں عبد السلام یسین شیخ نے مراکشی باد شا ہت کے زمانہ میں سابق شاہ محمد ششم کی شہنشا ہیت کے خلاف کھلا خط لکھنے کے جرم میںتین سال جیل میں بھی گزارے۔
ایک اور واقعہ جسے میں اپنے قار ئین سے شیئر کرنا ضروری سمجھتا ہوںوہ یہ ہے کہ تلاوت کی جانے والی سورة انزلنا لیلة القدر سنتے ہو ئے مجھے خیال آیا کہ اس سورة کے مطا بق شب قدر کی رات فرشتے آ سما نوں سے اترتے ہیں اور فجر ہو نے تک سلام کہتے ہیں خواہش پیدا ہو ئی کہ کاش مجھے بھی آ سمان سے اترے ان فرشتوں سے ملاقات کا مو قع نصیب ہو نماز تہجد کی ادا ئیگی سے قبل تہیة المسجد نوافل کی ادا ئیگی کے دوران یہ خواہش میرے دل میں پیدا ہو ئی جو نہی میں نے نوافل ختم کئے تو میں نے دیکھا ایک خوبصورت عربی نو جوان ایک پختہ عمر دراز قد اور مضبوط اعصاب کے ایک اندھے شخص کاہا تھ تھا مے مسجد میں داخل ہوا وہ شائد باب بدر سے مسجد میں داخل ہوا تھا وہ دو نوں پچھلی صف میں آ کر بیٹھ گئے میں چند لمحے انہیں دیکھتا رہا اور پھر میں اپنی جگہ سے اٹھا اور اس کے پاس جا کر ان دو نوں سے ہا تھ ملا یا دوسرے دن بھی ایسے ہی ہوا اور پھر شا ئد میری یہ ڈیوٹی لگ گئی جو نہی تہجد کا وقت ہوتا یہ دو نوںآکر اپنی معین جگہ بیٹھ جا تے اور تہجد اور نماز فجر کی ادا ئیگی کے بعد چلے جاتے 29 رمضان کی صبح بھی ایسے ہی ہوا گذرے دنوں میں میں نے ان سے کبھی بات نہیں کی تھی
Elderly
لیکن اس دن جب میں نے حسب عادت جاکر اس نا بینا شخص سے ہاتھ ملاتے ہوئے اس کے بیٹے کی طرف سے دیکھا اور پو چھا “ابی ” وہ اثبات میں سر ہلاتے ہو ئے مسکرایا میں نے اپنے ہاتھ پر اس نا بینا شخص کے ہاتھ کا دبائو محسو س کرتے ہو ئے اس کی طرف دیکھا تو اس کے ہو نٹوں پر بھی ایک خفیف مسکراہٹ تھی میرا اس با بے سے آ شنا ئی کا یہ پہلا اور آخری دن تھا مجھے لگا جیسے یہی دونوں باپ بیٹے وہ فرشتے ہیں جو مجھ سے ہاتھ ملا نے آسمان سے اترے ہوں وہ اس کئے کہ ایک نا بینا شخص کا باقاعدگی سے مسجد نبوی میں نماز تروایح کی ادائیگی کے لئے آنا اور اس سے بڑھ کر ایک خو شحال اور خوش پو شاک نو جوان بیٹے کا باقاعدگی سے اندھے باپ کا ہا تھ پکڑ کر نماز تہجد کی ادا ئیگی کے لئے مسجد نبوی لاناہی ان کے فرشتے ہو نے کی ہی نشا نی ہے۔
اعتکاف کے دوران تربیلا غازی کے حنیف پشاور کے ایاز خان اور جتو ئی کے مجید گھلو کی محبتوں کو فراموش نہیں کر سکوں گا یہ تینوں دوست ایک عرصے سے بسلسلہ روزگار سعودی عرب میں مقیم ہیں اعتکاف کے ان سا تھیوں نے ہم بوڑھوں کی بے انتہا خدمت کر کے بھرپور دعا ئیں سمیٹیں۔۔ جاتے جاتے ایک اور بات کہ میں نے اپنے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو بھی اپنے سیکیورٹی قا فلے کے ساتھ مسجد نبوی میں دا خل ہو تے دیکھا باب فہد سے سعودی فوجیوں کے جھرمٹ میں ہمارے وزیر اعظم اس شان سے مسجد نبوی میں داخل ہو ئے دیکھنے والوں کو محسوس ہوا کہ ایک وزیر اعAnjum Sehraiظم سلام کے لئے روضہ رسولۖ پر حاضری کے لئے آ یا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ کریم ہماری خطائوں کو معاف کرے۔ آمین