دنیا کی تاریخ میں شائد یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے کہ کسی شخص کو وزارتِ عظمی سے فارغ کیا گیا ہو اور وہی شخص ١٤ سالوں کے طویل، کٹھن اور صبر آزما سفر کے بعد پھر سے وزارتِ عظمی پر فائز ہو گیا ہو۔ جلا وطنی، جیلوں، ہتھکڑیوں اور صعوبتوں کے ایک لمبے عرصے کے بعد میاں محمد نواز شریف کا اپنی کھوئی ہوئی حیثیت پر واپس آنا ایک بالکل انو کھا واقعہ ہے جسے پاکستانی تاریخ میں اس سے پہلے دیکھا نہیں گیا۔ تاریخ میں ایسے بہت سے راہنما گزرے ہیں جھنوں ے بڑے طویل عرصے کیلئے جیلیں کاٹیں اور اپنی زند گی کا پیشتر حصہ زندانوں کی نظر کر دیا۔
جنگِ آزادی میں مہاتما گاندھی، علی برادران، مولا نا حسرت موہانی،خان عبدالغفارخان، پنڈت جواہر لال نہرو، سورش کاشمیری، عطا اللہ شاہ بخاری اور ایسے ہی ہزاروں کارکن قیدو بند کی صعوبتوں سے گزرے تو تب کہیں جا کر آزادی کی صبح ہمیں نصیب ہو سکی۔ پاکستان میں مولانا ابو الاعلی مودودی، ذولفقار علی بھٹو، محترمہ بے نظیر بھٹو، آصف علی زرداری، جہانگیر بدر، سید یوسف رضا گیلانی اور ہزاروں جیالوں نے جیلوں کی بلند و بالا دیواروں کی اذیتوں میں اپنی زندگی کے قیمتی شب و روز گزار کر جمہوری سفر کو ممکن بنایا۔
پاکستانی تاریخ میں میں سے کو ئی ایک بھی ا یسا قائد نہیں ہے جو اقتدار سے بے دخل کیا گیا ہو اور پھر ١٤ سالوں کے بعد دوبارہ اقتدار کے ایوانوں میں واپس آیا ہو۔ شاہِ ایران اقتدار کے بعد در بدر کی ٹھوکریں کھاتا رہا لیکن ایران کا تاج و تخت اسے دوبارہ نصیب نہ ہو سکا وہ تاج و تخت کی حسرت دل میں لئے جہانِ فانی سے رخصت ہو گیا لیکن ایران کی مٹی کو چھونا اسے نصیب نہ ہو سکا۔ یہی سب کچھ ا فغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ کے ساتھ بھی ہوا۔
اس نے ساری عمر جلاوطنی میں گزار دی لیکن افغانستان کا قتدار اس کا مقدر نہ بن سکا۔ سیاست کا میدان بڑا ہی سنگدل ہوتاہے اس میں ایک دفعہ نکالے گئے حکمران کی واپسی کو کوئی بھی قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتا اور یوں اقتدار سے بے دخل کیا گیا انسان حسر ت و یاس کی تصویر بنا دوسرے جہان کی راہ لیتا ہے۔ جنوبی افریکہ کے نیلسن منڈیلا نے بطلِ حریت کی حیثیت میں زندگی کے ٢٨ سال جیل کی نذر کئے تو وہ اس وقت کسی منصب پر فائز نہیں تھے بلکہ اسی طویل جیل نے انھیںعزت و احترام کی ایسی مسند عطا کی جو بہت کم انسانوں کے حصے میں آیا کرتی ہے۔
Zulfikar Ali Bhutto
پاکستان کی سیاسی تاریخ کا اگر بغور جائزہ لیں تو اس میں ذولفقار علی بھٹو ایک ایسے قائد کی صورت میں ہمارے سامنے آئے جھنیں عوام نے ١٩٧٠ کے انتخا بات میں اپنی بے پناہ محبت سے نوازا تھا اور وہ پاکستان کے پہلے منتخب وزیرِ اعظم کے اعزاز سے سرفراز کیا تھا لیکن جنرل ضیا الحق کے شب خون کے بعد انھیں جس طرح راستے سے ہٹا کر تختہِ دار پر کھینچ دیا گیا تھا وہ تاریخ کا انتہائی المناک باب ہے جسے بھولنا کسی کیلئے بھی ممکن نہیں۔
عالمی طاقتوں اور اسلامی ممالک کی طرف سے اس بات کی کوشش کی گئی تھی کہ کسی طرح سے کوئی ایسی راہ نکالی جائے جس سے ذولفقار علی بھٹو کی جان بچ جائے لیکن وہ سارے اس میں ناکام ہو گئے کیونکہ جنرل ضیا الحق ذ ولفقار علی بھٹو کی جان بخشی کیلئے کسی بھی قیمت پر تیار نہیں تھا۔ وہ ذولفقار علی بھٹو کے بچ جانے کو اپنی موت تصور کرتا تھا لہذا اس نے ذ ولفقار علی بھٹو کی جان بخشی کرنے سے معذرت کر لی تھی اور وہ کچھ کر ڈالا تھا جس نے پاکستانی سیاست کو نفرتوں اور انتقام کی بھینٹ چڑھا ڈالا۔
پاکستانی سیاست پچھلی کئی دہائیوں سے بھٹو اور اینٹی بھٹو سوچ کی اسیر رہی اور اس نے تصادم اور نفرتوں کو ایسی ہوا دی جس سے پاکستان کی ساری منتخب حکومتیں اپنی آئینی مدت پوری کرنے سے قاصر رہیں۔٢٠٠٢ اور ٢٠٠٨ کی اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرنے والی دو ایسی اسمبلیاں ہیں جن میں سے ایک تو جنرل پرویز مشرف کی نظرِ کرم کی بدولت تھی جبکہ دوسری اسمبلی ساری جمہوری قوتوں کی باہمی رضا مندی اور کوششوں سے پانچ سال پورے کرنے میں کامیاب ہوئی۔ اس میں بھی میاں محمد نواز شریف کی کاوشوں کی تحسین نہ کرنا زیادتی ہو گی کیونکہ اگر وہ چاہتے تو پی پی پی کی حکومت اپنے پانچ سال پورے کرنے سے قاصر رہتی۔
کیونکہ یہ جن کی حمائت پر کھڑی تھی انھوں نے تو کئی دفعہ اس سے پنی حمائت واپس لے لی تھی۔ مسلم لیگ (ق) کے حکومت میں شامل ہونے سے قبل ایک دفعہ جب ایم کیو ایم نے حکومت کو خیر باد کہہ دیا تھا تو پی پی پی کی حکومت اقلیتی حکومت ہو گئی تھی اور اسے ١٧٣ ارکان کی مطلوبہ حمائت حاصل نہیں تھی لیکن مسلم لیگ (ن) نے پھر بھی حکومت گرانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی تھی جوکہ ہما رے ماضی کے رویوں کے بالکل بر عکس تھا۔یہی وجہ ہے کہ میاں محمد نوز شرف پر فرینڈلی اپوزیشن کا الزام بھی لگتا رہا لیکن مسلم لیگ (ن) نے پھر بھی تصادمی سیاست سے پرھیز کی اور پی پی پی کو اپنی پانچ سالہ آئینی مدت کو پورا کرنے دی۔
پی پی پی کی غلطیوں نے مسلم لیگ (ن) کے اقتدار کی راہ ہموار کی اور میاں محمد نواز شریف ١٤ سالوں کے بعد وزارتِ عظمی کی اس مسند پر دوبارہ جلوہ افروز ہوئے جو ان سے جنرل پرویز مشرف نے ایک فوجی شب خون میں ١٢ اکتوبر ١٩٩٩ میں چھین لی تھی۔ آج کل وہی جنرل پرویز مشرف اپنے گھر چک شہزاد میں نظر بند ہے اور اس نے جھنیں زندانوں کی صعوبتوں کے حو الے کیا تھا وہ بر سرِ اقتدار ہیں اور جنرل پرویز مشر ف کی قسمت کا فیصلہ انہی کے ہاتھوں میں ہے۔ آئین کا آرٹیکل چھ آئین شکن جنرل پرویز مشرف کے سر پر ایک ننگی تلوار کی طرح لٹک رہا ہے۔
Musharraf
جس سے اس کی ہلاکت یقینی لگتی ہے ۔ جنرل پرویز مشرف نے کب سوچا ہو گا کہ میاں محمد نواز شریف ایک دن وزیرِ اعظم پاکستان بن جائیں گئے اوروہ اپنے ہی گھر میں اسیر ہو جائے گا اور اس کی اپنی جان میاں صاحب کے رحم و کرم پر ہو گی۔ تاریخ کا کھیل بھی بڑا عجیب و غریب اور بے رحم ہے۔ یہ کسی کے ساتھ رورعائت نہیں کرتا۔ بادشاہ گدا گر بن جاتے ہیں اور جلا وطنی کا زہر پینے والے مظلوم لوگ بادشاہ بن جاتے ہیں۔قر آنِ حکیم اس طرح کے بے شمار واقعات کا ذکر کرتا ہے لیکن ہم ان واقعات سے سبق سیکھنے کی بجائے انھیں واقعاتی اور تاریخی رنگ دے کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔
ان کے اندر چھپی حکمت سے کوئی سبق سیکھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ قرآن میں بیان کردہ داستانیں علم و حکمت کا بیش قیمت خزانہ اپنے دامن میں چھپائے ہوئے ہیں لیکن ہماری سطحی بین نگا ہیں ان خز انوں تک پہنچ نہیں پاتیں اور ہم اپنی اکڑ فوں اور غروروتمکنت میں وہ کچھ کر جاتے ہیں جو انصاف، حکمت اور انسانیت کے تقاضوں کے خلاف ہوتا ہے۔ یہ ساری داستانیں انسانوں کی بے راہ روی اور ا نصاف کا خون کرنے کے تباہ کن مضمرات کا بیان ہیں لہذا جس نے تاریخ کے ااندر بیان کردہ اس بے رحم سبق کو از بر یاد کر لیا اور انصاف کا علم تھام لیا انھیں موت سے بھی مارا نہ جا سکا بلکہ وہ ہمیشہ کیلئے زندہ و جاوید ہو جاتا ہے۔
کہتے ہیں جیلیں جلا وطنیاں اور مصائب انسان کی کردار سازی میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں اور ان کے رویوں میں تبدیلی کے پیام بر بنتے ہیں۔میاں محمد نواز شریف ایک بڑی ہی مشکل راہ سے گزر کر اقتدار کی راہداریوں میں واپس لوٹے ہیں لہذا امید کی جاتی ہے کہ ان کے اندر صبرو تحمل اور برداشت کا مادہ کافی مضبوط ہو گا اور وہ ایک مختلف انسان کے روپ میں ہمارے سامنے آئیں گئے۔اگر وہ اب بھی اناکے قیدی بنے رہے تو یہ پاکستان کی بڑی بد قسمتی ہو گی۔
ان سے قوم کو بڑی امیدیں وابستہ ہیں لہذا قوم انھیں ایک مختلف روپ میں دیکھنے کی آرزو مند ہے۔وہ ان سے اپنے مسائل کا حل چاہتی ہے ۔وہ اپنی تکالیف کا ازالہ چاہتی ہے جسے وہ سا لہا سال سے برداشت کر رہی ہے۔ میاں محمد نواز شریف کو ایک روا ئتی سیاست دان کی بجائے ایک مدبر سیا ستدان کے روپ میں سامنے آنا ہو گا۔وہ چونکہ خود بہت ہی کٹھن دور سے گزرے ہیں لہذا انھیں احساس ہو گا کہ تکالیف کیا ہوتی ہیں اور ان کا درد کتنا شدید ہوتا ہے۔
انھوں نے جیلوں کو بھی دیکھا ہے۔ جلا وطنی کو بھی برداشت کیا ہے۔وطن کی مٹی اور اس کے عوام سے سالہا سال دوریوں کا زہر بھی پیا ہے لہذا ان کے اندر پاکستان کی تشکیلِ نو کے جذبے بڑے جوان ہوں گئے۔ عوام کی حالتِ زار کو بدلنے اور ان کے مسائل کو حل کرنے کیلئے ان کے سینے میں ایک امنگ اور تڑپ ہو گی جو انھیں ہمہ وقت بے چین کئے ہو گی۔ خدا کرے وہ اپنے جذبوں کو عمل کا روپ عطا کر سکیں اورعوامی توقعات پر پورا اتر سکیں۔ہماری دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔