لاہور (جیوڈیسک) 8 جولائی 2016 کا دن مقبوضہ کشمیر کیلئے ایک یوم سیاہ تھا، اس دن بھارتی ریاستی دہشت گردی کانشانہ ایک ایسا مرد مجاہد بنا جس نے اپنے شباب کے آغاز میں بھارتی سورمائوں کو للکارا۔ تحریک آزادی کو ایک نئی روح اور زندگی دینے والے برہان وانی کی اطلاع دینے والے کیلئے بھارت سرکار نے 10 لاکھ روپے کا اعلان کر رکھا تھا۔بھارتی فورسز کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکنے والے اس نوجوان کی ایک کال پر ہزاروں نوجوانوں نے لبیک کہا اور بھارتی افواج کے خلاف گوریلا کارروائیاں شروع کر دیں۔
بھارتی سفاکی اور ناجائز قبضے کے خلاف جدو جہد میں شامل ہر کشمیری نوجوان کو اپنا مستقبل معلوم ہے لیکن وہ اس کی قیمت چکانے کیلئے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد اور آمریت کے روپ میں چھپی جمہوریت کے غنڈوں نے ظلم اور تشدد کے تمام ہتھکنڈے آزما لئے ہیں۔ بچوں کو سنگینوں اور برچھوں سے چھلنی کرنے سے لے کر عورتوں اور بوڑھوں پر بے تحاشا تشدد اور نوجوانوں کو اغوا کر کے بے نام قبروں میں پھینک دینا اور نہتے کشمیریوں پر گولیاں برسانا اب وہاں ایک معمول بن چکا ہے۔ لیکن جوں جوں ظلم بڑھ رہا ہے تحریک آزادی میں ایک نیا ولولہ اور رُخ سامنے آ رہا ہے۔
وانی اپنے پیچھے ہزاروں سر فروشوں کی ایک فوج تیار کر کے شہید ہوا جو اس کے بعد آزادی کی اس مسلح جد و جہد میں دن رات ایک کئے ہوئے ہے ۔برہان وانی کے بھائی کو شہیدکیا گیا، اس کے گھر والوں پر مصیبت کے پہاڑ توڑ ے گئے لیکن اس کے باپ مرد قلندر کے پائوں میں لغزش نہ آئی ، جس دن وانی کی شہادت ہوئی اس کے اگلے روز 9 کشمیری نوجوانوں نے جام شہادت نوش کر کے اس کے مشن کی آبیاری کی۔ وادی پر ناجائز قابضین کیخلاف آواز اٹھانا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے لیکن جب برہان وانی نے سوشل میڈیا کو کشمیری نوجوانوں تک اپنا پیغام پہنچانے کیلئے استعمال کرنا شروع کیا تو بھارتی خفیہ پولیس اور انٹیلی جنس کے اداروں نے اس کے گھر کی نگرانی شروع کر دی۔
قابض افواج چاہتی تھیں کہ اسے زندہ گرفتار کیا جائے لیکن اس نے بھارتی درندوں کو یہ موقع نہ دیا ۔ برہان وانی جونہی شعور کی عمر کو پہنچے تو انہوں نے بھی لاکھوں کشمیریوں کی طرح اپنی سر زمین پربھارتی فوج کے بھاری بھرکم اور بدبو دار بوٹوں کی چاپ سنی، جوں جوں وانی جوان ہوتے گئے ان کو قابض فوج کے کرتوتوں کا علم ہوتا گیا ۔میٹرک پاس کرنے کے فوری بعد2010ء میں اس نے سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوانوں کو منظم کرنے اور جذبہ آزادی کی تڑپ کو دیکھتے ہوئے قیادت نے اسے جنوبی کشمیر کا کمانڈر مقرر کیا ، اس سے پہلے لوگ اس کے متعلق زیادہ نہیں جانتے تھے ۔ جب اس کا بڑا بھائی خالد اپریل2015ء میں قابض افواج کے ہاتھوں شہید ہوا تو پھر مظفر وانی منظر عام پر آیا۔
خالد کی لاش پر زخموں کے علاوہ تشدد کے نشانات بھی پائے گئے جس سے معلوم ہوتا تھا کہ اسے پہلے گرفتار کیا گیا اور اذیتیں دیکر اس کی جان لی گئی تھی، اس کے بعد علاقے کے لوگوں کی نظریں چھوٹے بھائی برہان وانی کی طرف دیکھنے لگیں،اپنی خدا داد صلاحیتوں اور قیادت کی مختصر تربیت کی بنیاد پر وانی بہت جلد کشمیری نوجوانوں میں ایک متحر ک اور مقبول کمانڈر کی حیثیت سے سامنا آیا۔ اس نے قابض افواج کو ناقابل حد تک نقصان پہنچایا اور اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس نے ایسی حکمت عملی اختیا رکی کہ اس کے زیر کنٹرول علاقے میں بھارتی فوج کی گرفت ڈھیلی پڑ نے لگی۔ اس کی جنگ مقامی پولیس کے بجائے بھارتی فوجی درندوں سے تھی جو نہتے کشمیریوں کو نشانہ بناتے تھے۔
شہادت سے ایک ہفتہ پہلے بھارتی غنڈوں نے اس کو اچانک حملے میں شہید کرنا چاہا لیکن ان کے مذموم مقاصد پورے نہ ہو سکے، آزادی کی شمع کے لیے اپنا خون انڈیلنے والے اور لاکھوں کشمیریوں کے دلوں کی دھڑکن وانی کو 8 جولائی 2016 کو جمعہ کی شام بھارت کی بھاری فوج نے ایک خون ریز مقابلے میں شہید کر دیا ۔ شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے۔ ملکی اور عالمی میڈیا نے اسے کشمیری نوجوانوں کا مقبول ترین کمانڈر قرار دیا ہے۔