ریلوے پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے لیکن بد قسمتی سے سابق وزیر ریلوے نے اس محکمے کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ۔گزشتہ برس انتخابات کے بعد مسلم لیگ(ن) کی حکومت آئی تو میاں نواز شریف نے ریلوے کا چارج خواجہ سعد رفیق کو دیا جنہوں نے ریلوے کو خسارے سے نکالنے کا عزم کیا اور اعلان کیا کہ نہ صرف مسلم لیگ(ن) کی حکومت ریلوے کو خسارے سے نکالے گی بلکہ منافع بخش ادارہ بنائے گی،ریلوے کے ملازمین کا بھی تحفظ کیا جائے گا۔پاکستان ریلوے بڑے پیمانے پر آمدورفت کی سستی تیز رفتار اور آرام دہ سہولیات فراہم کرتا ہے۔
گزشتہ دنوں لاہور کینٹ سے راولپنڈی تک شام چھ بجے اسلام آباد ایکسپریس کا آغاز ہوااسکے دو دن بعد ہی اسی گاڑی کے ذریعہ لاہور سے اسلام آباد تک سفر کا موقع ملا،اسلام آباد ایکسپریس لاہور کینٹ سے روانہ ہوتی ہے میں اپنے دوست حبیب اللہ قمر کے ہمراہ ساڑھے پانچ بجے لاہور ریلوے اسٹیشن پہنچا گاڑی کا انتظار کرنے لگے،پانچ بج کر چون منٹ منٹ پر گاڑی کینٹ سے اسٹیشن پہنچی اور صرف چھ منٹ کے وقفے کے بعد اسلام آباد کے لئے روانہ ہو گئی۔
کینٹ سے اسلام آباد ایکسپریس میں سواریاں نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں کیونکہ ہر آنے جانے والے کو لاہور اسٹیشن تک پہنچنے میں آسانی ہوتی ہے۔ کینٹ تک گاڑی کے جانے اور وہاں سے نکلنے کے لئے کم از کم 2 گھنٹے انجن سٹارٹ رہتا ہے۔
اس دورانئے میں 15 سے 20 ہزار روپے کا صرف ڈیزل کا خرچ آتا ہے جبکہ باقی سٹاف و دیگر اخراجات الگ ہیں اور سواری بھی کینٹ سے اتنی نہیں ملتی ،جناب خواجہ سعد رفیق صاحب نے ریلوے کو منافع بخش ادارہ بنانے کی ٹھان رکھی ہے تو انکو چاہئے کہ ایسے لا یعنی اخراجات کو بھی روکا جائے جن سے ریلوے کو فائدہ کم نقصان زیادہ ہو،ریلوے کی بہتری کے لئے ایسے اقدامات کریں جو پائیداراور دیرپا منافع بخش ہوں،خیر چھ منٹ کے وقفے کے بعد گاڑی روانہ ہوئی ،اب مین اسٹیشن پر چھ منٹ ناکافی ہیں اگر اسلام آباد ایکسپریس کو کینٹ سے چلانا مجبوری یا ضروری ہے۔
Khawaja Saad Rafiq
تو کم ازکم آدھے گھنٹے کا سٹاپ لاہور مین اسٹیشن پر ہونا چاہئے کیونکہ مسافروں کا رش اسی مقام پر ہوتا ہے اور گوجرانوالہ و قریبی علاقوں کی سواری سب سے زیادہ ہوتی ہے چھ منٹ کے وقفہ انتہائی کم ہے ۔ہم نے اے سی بزنس کا ٹکٹ بک کروایا ہوا تھا جس کا خواجہ سعد رفیق نے دو دن پہلے افتتاح کیا۔ بزنس میں سوار ہونے سے قبل اے سی پارلر اور لوئر اے سی کو چیک کیا تو اس میں پائوں رکھنے کی جگہ نہیں تھی اسکے مقابلہ میں اے سی بزنس میں سواریاں نہ ہونے کے برابر تھیں ،ڈبے میں بنائے گئے ہر کمرے میں چھ سیٹیں اور چھ ہی برتھ تھیں جہاں ہماری بکنگ تھی وہاں اور کوئی مسافر نہیں آیا۔
جبکہ باقی کمروں کی بھی یہی صورتحال تھی ایک دودو مسافر تھے کوئی بھی کمرہ سیٹر نہیں تھا ،جناب وزیر ریلوے کو اس بات پر بھی توجہ دینی چاہئے کہ اے سی پارلر اور لوئر اے سی میں تو ایک بھی سیٹ خالی نہیں اور بزنس کلاس میں مسافروں کی کوئی توجہ ہی نہیں ،بزنس کلاس میں نئی بوگی شامل کی گئی ہیں جبکہ اے سی پارلر اور لویئر اے سی میں پرانی بوگیاں ہیں جن کی سیٹوں کی حالت دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ شاید یہ”شیخ” صاحب کے دور سے بھی قبل کی گاڑیاں ہیں۔
حکومت کو بزنس کلاس کے ساتھ ساتھ لوئر اے سی اور پارلر میں بھی نئی بوگیاں ڈالنی چاہئے تا کہ مسافرآرام و سکون کے ساتھ سفر کر سکیں اسی طرح لوئر اور پارلر میں اگر ممکن ہو تو کچھ ڈبوں کا مزید اضافہ کیا جائے کیونکہ مسافر مناسب کرائے میں گرمی میں ٹھنڈے ماحول میں سفر کرنا چاہتے ہیں اور یہ تبھی ممکن ہو گا جب لوئر اے سی میں ڈبوں کی تعداد زیادہ ہو گی۔
تقریبا آدھے گھنٹے کا سفر طے کرنے کے بعد بزنس ٹرین میں بنائے گئے چھ سیٹر روم کا دروازہ بجایا گیا جب کھولا تو کنڈیکٹر گارڈ جناب ذوالفقار علی،ایس ٹی ای مختار شاہ اور الیکٹرک سٹاف نیئر عباسی ٹکٹ چیک کرنے کے لئے آئے تھے ،دروازہ کھلتے ہی انہوں نے سلام کیا اور حال معلوم کرنے کے بعد اگلاسوا ل کیا کہ آپ کو ٹرین میں سفر کیسا لگا،گاڑی کی بہتری کے بارے میں کوئی تجاویز یا اگر کوئی شکایت ہو تو بتائیں؟ ہم حیران ہو رہے تھے کہ ٹرین کے سفر میں جہاں مسافروں کو ماضی میں ذلیل کیا جاتا تھا۔
ٹکٹ چیکر ایسے ٹکٹ چیک کرنے آتے تھے جیسے یہ ٹکٹ چیک کرنے نہیں بلکہ مسافر کو ٹرین سے نیچے پھینکنے کے لئے آئے ہیں یا جیل بھجوانے کے لئے آئے ہیں ساتھ پولیس کا اہلکار بھی ہوتا تھا مگر اب کی بار ایسا نہیں ہوا،واضح اور نمایاں تبدیلی تھی ،با اخلاق عملہ ،مسافروں کے دل جیت چکا تھا اور کنڈیکٹر گارڈ ذوالفقار علی یقینا جس کے پاس بھی ٹکٹ چیک کرنے گئے ہوں گے اس مسافر نے آئندہ کے لئے یہ عزم کیا ہو گا کہ کم از کم لاہور اسلام آباد یا اسلام آباد لاہور کا سفر ٹرین پر ہی اور نہ صرف ٹرین بلکہ اسلام آباد ایکسپریس پر کرنا ہے۔
Zulfiqar Ali Bhutto
ذوالفقار علی نے ٹرین کے بارے میں پوچھنے کے بعد ٹکٹ چیک کیا اور جاتے ہوئے پھر سلام کرتے ہوئے کمرہ سے دوسرے کمرے میں پہنچ گئے یقینا یہ ٹرین کے عملے میں تبدیلیاں ،خوش اخلاقی خواجہ سعد رفیق صاحب کی وجہ سے ہی ہیں جنہوں نے ریلوے میں سفارش کلچر کو بالکل مسترد کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ ریلوے ملازمین کے حقوق کا بھر پور دفاع کیاجائے گا ،گزشتہ وفاقی وزیر ریلوے جناب بلور صاحب جو کئی ٹرینیں بمعہ انجن ہڑپ کر گئے انکے دور میں تو تین تین چار چار ماہ ریلوے کے مسافروں کو تنخواہیں نہیں ملتی تھیں لیکن مسلم لیگ(ن) کی حکومت میں خواجہ سعد رفیق کے وزیر بننے کے بعد ملازمین کو نہ صرف تنخواہیں وقت پر ملنا شروع ہوئیں بلکہ انکے دیگر حقوق کا بھی تحفظ کیا گیا اور کیا جا رہا ہے۔
اس وجہ سے ریلوے کے عمے میں خوشگوار تبدیلی جس کا دعویٰ سونامی خان نے کیا تھا وہ تو نہ لاسکے لیکن خواجہ سعد رفیق ضرور لے آئے ہیں او ر جس طرح خواجہ صاحب ریلوے کو چلا رہے ہیں ایسا لگتا ہے کہ پانچ سالو ں میں ریلوے کو اگر منافع بخش ادارہ نہ بھی بنا سکے تو خسارے سے ضرور نکال لیں گے اور اگر مسلم لیگ(ن) کو پھر اقتدار ملا اور خواجہ سعد رفیق کو پھر وزارت ریلوے ملی تو پھر یقینا ریلوے منافع بخش ادارہ بن سکتا ہے۔
چھ بجے گاڑی لاہور سے روانہ ہوئی ساڑھے دس بجے راولپنڈی پہنچنا تھا، ساڑھے آٹھ بجے کے قریب پھر روم کا دروازہ کھلا اور شام کا کھانا ہاتھوں میں تھما دیا گیا ہم نے کھانا پکڑ لیا اور کھا بھی لیا تھوڑے سے وقفے کے بعد ویٹر پہنچ گیا اور ہم نے اسے بل دے کر رخصت کر دیا۔
لیکن دو کمرے چھوڑ کر ایک کمرے میں شو ر کی آواز آئی تو پتہ چلا کی کھانے والی ٹیم کے ساتھ مسافروں کی لڑائی ہو رہی ہے ،کیٹرنگ والے خاموشی سے کھانا پکڑا کر چلے جاتے ہیں مسافر یہ سمجھتے ہیں کہ شاید اے سی بزنس میں سفر کرنے کی وجہ سے یہ کھانا انہیں فری میں مل رہا ہے لیکن جب وہ بل مانگتے ہیں تو پھر مسافر کا دماغ ٹھکانے آتا ہے ایک نمکین بے ذائقہ چھوٹا سا چکن روسٹ کا ٹکڑا اور دو سینڈوچ اسکی قیمت دو سو روپے لی جاتی ہے اب جس روم میں لڑائی ہورہی تھی مسافر کہہ رہا تھا کہ ہم نے تو کھانا منگوایا ہی نہیں تو تم نے دیا کیوں؟کیٹرنگ والا کہہ رہا تھا کہ جب میں نے دیا۔
تو تم نے لے کر کھایا کیوں؟خیر کیٹرنگ والے نے اپنی رقم کے کر ہی مسافر کو چھوڑا،میری اطلاع کے مطابق خواجہ سعد رفیق نے کیٹرنگ عملے کو اس بات کا پابند کیا ہے کہ ہر مسافر کو پہلے مینو دیا جائے جا پر کھانا اور اسکی قیمت درج ہو اسکے بعد مطلوبہ کھانا مسافرکو فراہم کیا جائے لیکن ایسا ٹرین میں ہر گز نہیں ہو رہا کھانے کے معاملے میں مسافروں کو لوٹا جاتا ہے ،حکومت اس طرف بھی توجہ کرے کم از کم کھانے کو چیک بھی کیا جائے کہ آیا یہ کھانے کے قابل ہے بھی سہی یا نہیں ؟اور پھر مینو کے بغیر مسافروں کو کھانے کے نام پر لوٹ مار کا سلسلہ بند ہونا چاہئے،اسلام آباد ایکسپریس کونان سٹاپ ٹرین کہا گیا ہے ،اور یہ لاہور سے راولپنڈی ساڑھے چار گھنٹے میں پہنچتی ہے۔
لاہور سے پنڈی کا ریلوے کا فاصلہ ایک سو اسی میل ہے گویا یہ نان سٹاپ ٹرین چالیس میل فی گھنٹہ کی رفتار سے جاتی ہے ۔شیخ رشید کے دور میں لاہور سے اسلام آباد تک نان سٹاپ ٹرینیں ساڑھے تین گھنٹے میں پہنچتی رہی ہیں ،عام بسیں بائی روڈ لاہور سے اسلام آباد چار گھنٹے میں پہنچ جاتی ہیں توکم از کم نان سٹاپ ٹرین کو چار کی بجائے ساڑھے تین گھنٹے میں پہنچنا چاہئے اگر یہ اسی طرح ساڑھے چار گھنٹے کے دورانیہ میں پہنچتی ہے تو کم از کم اسکو نان سٹاپ کا نام نہ دیں کیونکہ یہ گاڑی کچھ سٹیشنوں پر رکتی بھی ہے اور اس میں سب سے زیادہ سواریاں گوجرانوالہ کی ہوتی ہیں ،ٹرین کے ساتھ صرف ایک کنڈیکٹر گارڈ اور ایک ایس ٹی ای ہوتا ہے، لاہور سے گوجرانولہ کا سفر ایک گھنٹے کا ہے۔
ایک کنڈیکٹر گارڈ اے سی لوئر کی نوے سیٹوں کے ٹکٹ چیک کے اے سی پارلیر میں پہنچتا ہے تو گاڑی گوجرانوالہ پہنچ جاتی ہے اور گوجرانوالہ تک کے مسافروں کے ٹکٹ چیک نہیں ہو سکتے جناب خواجہ صاحب اس بھی توجہ دیں کہ کنڈیکٹر گارڈ ایک کی بجائے کم از کم دو یا تین ہونے چاہئے تا کہ ٹرین میں کوئی بھی بغیر ٹکٹ سفر نہ کر سکے ایک لوئر اے سی میں ٹکٹ چیک کرے تو دوسرا اکانومی کلاس میں ،اسطرح بہت سے مفت خورے جو گوجرانوالہ تک بغیر ٹکٹ کے سفر کے عادی بن چکے ہیں ایسے لوگوں کا محاسبہ کیا جا سکتا ہے۔وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کہتے ہیں کہ پاکستان ریلوے کو 2014ء میں گزشتہ سال کی نسبت 5 ارب 27 کروڑ روپے زائد آمدنی ہوئی، ملک میں ریلوے کی 500 ایکڑ اراضی قبضہ گروپوں سے واگزار کرائی گئی جبکہ 20 انجن ریلوے اگست تک نظام میں شامل ہو جائیں گے۔
حکومت ریلوے مسافروں کو جدید سہولیات پر مبنی آرام دہ سفر فراہم کرنے کیلئے تمام ممکن اقدامات کر رہی ہے۔ مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے انہیں ریلوے کی آمدن 21 ارب روپے کرنے کا ٹارگٹ دیاہے جسے وہ پورا کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ پاکستان ریلوے کے خسارے میں روز بروزکمی آرہی ہے اور ریلوے کے سفر کو فول پروف بنانے کیلئے اہم اقدامات بھی کئے جارہے ہیں۔ ماضی میں ریلوے کی بہتری کیلئے کوئی سنجیدہ اقدامات نہیں کئے گئے تاہم اب مسلم لیگ (ن) کی حکومت پاکستان ریلوے کو بہتر بنانے میں سنجیدہ ہے اور وہ پر عزم ہیں کہ وہ ضرور کامیاب ہونگے۔