تحریر : شاہد شکیل یہ سن انیس سو پچاسی کی بات ہے کہ ہفتہ کے دن میں نے سوچا کار کی بجائے ٹرام سے شالیمار سٹور کو ویڈیو کیسٹ واپس کر آتا ہوں سفر طویل ہونے کی وجہ سے سب رنگ ڈائجسٹ بھی ساتھ لے لیا کہ ٹرام میں دیگر مسافروں کی شکلیں دیکھنے یا کھڑکی سے باہر ادھر ادھر نظریں دوڑانے کی بجائے آدھے گھنٹے میںایک کہانی ہی پڑھ لونگا ٹرام میں ساتھ والی سیٹ پر ویڈیو کیسٹ رکھ کر ڈائجسٹ پڑھنے میں مشغول ہو گیا ، نیو مارکیٹ کی اناؤنسمنٹ ہوئی اور ڈائجسٹ بند کرکے ٹرام سے اتر گیا چند قدم چلنے کے بعد سر پیٹ لیا کہ کیسٹ تو ٹرام میں ہی بھول گیا ہوں چالیس منٹ بعد دوسری ٹرام آئی تو اس میں بیٹھ کر ٹرام والوں کے ہیڈ آفس پہنچا اور اپنا مدعا بیان کیا انہوں نے تمام پوچھ گاچھ کے بعد کیسٹ واپس کر دی۔ظاہر بات ہے کہ کسی بھلے انسان نے کیسٹ ٹرام ڈرائیور کو دی اور اس نے ہیڈ آفس پہنچا دی کہ جس کی ہوگی نشانی بتا کر حاصل کر لے گا۔
دو ماہ قبل ایک بار پھر کولون شہر سے بذریعہ ٹرام واپس گھر آرہا تھا مسافروں کی آمد روفت جاری تھی کہ اچانک میری نظر دوسری جانب سیٹ کے نیچے چلی گئی اور سیٹ پر براجمان مسافر کو اشارہ کیا کہ زمین پر اس کا پرس پڑا ہے اس نے پرس اٹھایا اور کھڑا ہو کر پرس کو ہوا میں لہراتے ہوئے پوچھنے لگا کہ یہ کس کا ہے ،کسی کا ہوتا تو جواب دیتا ،کیونکہ جس نے پرس کھویا تھا وہ شاید پچھلے سٹاپ پر ٹرین سے اتر گیا تھا ،وہ شخص چلتا ہوا ٹرام ڈرائیور کے کیبن تک گیا اور سٹاپ آنے پر پرس اس کے حوالے کر دیا کیونکہ دوران سفر ٹرام ڈرائیور سے بات چیت کرنا ممنوع ہے۔یہ دونوں واقعات میرے ساتھ اور سامنے رونما ہوئے اور جرمنوں کی ایمانداری پر بہت خوشی ہوئی لیکن چند لوگوں کے خوش یا ایماندار ہونے سے اتنا زیادہ اثر یا فرق نہیں پڑتا کیونکہ مجھے اگر بیس مارک(انیس سو پچاسی)میں کیسٹ واپس ملی تو میں خوش تھا یا ٹرام میں مسافر کی ایمانداری پر دس پندرہ افراد خوش ہوئے ۔خوشی کی لہر سارے جرمنی میں اس وقت آئی جب ایک شامی پناہ گزین نے اچانک ڈیڑھ لاکھ یورو مل جانے پر پولیس کو اطلاع دی اور پولیس نے واقعہ کی چھان بین کے بعد پریس کو بلایا اور یہ خبر سارے جرمنی میں آگ کی طرح پھیل گئی کہ ایک ایماندار مسلمان نے نئی تاریخ رقم کر دی ہے یہ ہیرو ہے۔
Syrian refugees
رپورٹ کے مطابق پچیس سالہ شامی پناہ گزین کو تحفے میں ملی ایک کپڑوں کی الماری سے نقد پچاس ہزار یورو اور ایک لاکھ یورو کی سیونگ بکس ملیں اس نے فوراً فارن آفس فون کیا اور انہوں نے پولیس کو جائے وقوعہ کا پتہ بتایا چند منٹوں بعد پولیس نے چھان بین کی اور تمام نقدی ، سیونگ بکس اور دیگر چیکس و کاغذات اپنی تحویل میں لینے کے بعد مِنڈن شہر کے مقامی اخبار کو اطلاع دی اور کچھ دیر بعد وہ بھی کیمروں اور مائکروفونز سمیت وہاں پہنچ گئے ،تصاویر اور انٹرویو شروع ہو گئے۔مفصل پولیس اور فارن آفس رپورٹ کے مطابق یہ ایک بالکل غیر معمولی واقعہ ہے کیونکہ آئے دن سو دو یورو مل جانا یا کسی گھڑی یا چھتری کا کھونا عام سی بات ہے اور دوبارہ مل جانا بھی معمولی واقعات ہیں لیکن حالیہ واقعہ معمولی نہیں ہے ہمیں یقین نہیں ہورہا کہ اتنی خطیر رقم مل جانے پر کوئی انسان یہ سوچے کہ واپس کر دی جائے لیکن شامی پناہ گزین نے ثابت کر دیا ہے کہ دنیا میں ایمانداری اب بھی موجود ہے یہ نوجوان ایک مثالی مسلمان ہے اور عظیم کریڈٹ کا مستحق بھی ،فارن آفس کا کہنا ہے اس نوجوان کے مستقبل کے لئے جوکچھ ممکن ہوا ہم کریں گے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس نوجوان نے گزشتہ برس اکتوبر میں جرمنی میں قدم رکھا اور چار ہفتوں بعد مِنڈن شہر میں آبسا،
آج کل جرمن زبان سیکھنے کیلئے لینگویج سکول اٹینڈ کررہا ہے اور بہت جلد ایک اعلیٰ مقام بھی حاصل کر لے گا کیونکہ شام میں مواصلاتی ٹیکنالوجی میں بیچلر کی ڈگری حاصل کر چکا ہے اور خواہش ہے کہ جرمنی میں ماسٹر ڈگری حاصل کرے۔جرمنی کے تمام میڈیا سسٹم نے اس واقعہ کا خوب اور بڑھ چڑھ کر چرچا کیا ہے کہ سب انسان ایک جیسے نہیں ہوتے اور نہ کسی کے ماتھے پر لکھا ہوتا ہے کہ وہ اچھا انسان ہے یا کریمینل،پولیس کا کہنا ہے بہت جلد ہم گمشدہ رقم کے مالک کا پتہ لگا لیں گے ، جبکہ شامی نوجوان نے انٹرویو میں بتایا امانت میں خیانت کرنا گناہ ہے، یہ رقم میری نہیں تھی اور نہ اس پر میرا کوئی حق بھلے مجھے سڑک پر پڑی ملی ہے مجھے خوشی ہے کہ دیار غیر میں میرے مثبت عمل اور رویے سے سب مسلمانوں کا سر فخر سے بلند ہوا۔