اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی تعلیم و تربیت اور فلاح کے لیے تقریبا ایک لاکھ 24 ہزار پیغمبر اور نبی دنیا میں میں بھیجے جنھوں نے انسانیت کو خُدا کی وحدانیت کا ازلی اور پیغام پہنچایا۔یہ سلسلہ نبی اکرمۖ تک جاری رہا جو نبی آخرالزمانۖ ہیں ان کے بعد اب قیامت تک کوئی نبی اور پیغمبر دنیا میں نہیں آئے گا ۔اب نبیوں،پیغمبروں اور رسول اکرمۖ کا پیغام خُداوندی اور رشد و ہدایت کا یہ فریضہ اولیائے اللہ اور علمائے کرام انجام دے رہے ہیں ۔اللہ پاک اور رسول اللہۖ کا یہ پیغام ہم تک خلفائے راشدین، اصحابہ کرام،تبع تابعین سے ہوتا ہوا بزرگان دین کے ذریعے ہم تک پہنچ رہا ہے۔اللہ کے ان بزرگ نیک بندوں اولیائے اللہ میں حضرت بابا فریدالدین مسعودگنج شکر، شاہ عبداللطیف بھٹائی، حضرت خواجہ معین الدین چشتی، حضرت داتا گنج بخش، حضرت پیر عبداللہ شاہ غازی، حضرت امام علی الحق، آستانہ عالیہ گولڑہ شریف،حضرت امام بری، آستانہ عالیہ چورہ شریف،آستانہ عالیہ علی پورشریف اور آستانہ عالیہ دربارکریمی کے دیگر بزرگان دین شامل ہیں ۔انھیں بلندپایہ ہستیوں میں ایک کا نام نامی نجم الاصفیائ،سراج الاولیاء پیرطریقت رہبرشریعت الحاج قاضی محمدطاہر عثمانی کریمی آستانہ عالیہ دربار کریمی لوسر میرا واہ کینٹ نہایت قابل ذکر ہیں۔اللہ کے دین اور رسول اکرمۖ کے پیغام کو مخلوق خدا تک پہنچانے میں قبلہ پیر قاضی محمد طاہر کریمی نے نمایاں کارہائے نمایاں انجام دئیے۔
حضرت طاہر کریمی نے روحانی اور دینی فیض برصغیر پاک و ہند کے معروف آستانہ عالیہ عیدگاہ شریف راولپنڈی سے حاصل کیا۔ آپ نے تمام عمر دین کی سربلندی میں بسر کی،انھوںنے نے ہمیشہ قران و حدیث اور سنت نبویۖ پر عمل پیرا رہ کر زندگی گزاری۔مخلوق خدا کو نہایت محبت کیساتھ اللہ اور رسول اللہ ۖ کا پیغام پہنچایا،آپ سادگی،عاجزی اور انکساری کا بہترین نمونہ تھے اپنی بات نہایت ہی دھیمے ،میٹھے اور عام فہم انداز میںبیان کرتے جو تمام حاضرین محفل کو باآسانی سمجھ آجاتی تھی دین میں سختی کے قائل نہ تھے۔حضرت پیر قاضی طاہرکریمی کے وصال کے بعد آستانہ عالیہ دربار کریمی کا تاج خلافت ان کے صاحبزادے قبلہ جناب حضرت صاحبزادہ محمد طارق عثمانی کریمی کے سر پر سجایا گیا جنھوں نے اپنے عملی کردا رکے ذریعے قبلہ حضرت پیر قاضی طاہر کریمی کی جانشینی کا حق ادا کردیا۔ان کے شب و روز بھی بڑے قبلہ کی طرح لوگوں کو پیغام حق سناتے اور درود و سلام کی محفلوں میں گزرتے ہیں ۔
مجھے حضور قبلہ عالم پیرقاضی طاہر کریمی کے ساتھ نسبت اور بیعت کا شرف لگ بھگ 1975ء کے قریب ہوا تھا جب میں ایام جوانی میں تھا اور محلہ شاہ سیداں سیالکوٹ میں واقع ایک پرائیویٹ فرم میں بطور کلرک ملازم تھا ۔ایک دن میں اپنے ایک دوست چوہدری یونس کی فوٹوگرافی کی دوکان واقع بانو بازار میں گیا تو وہاں مجھے قبلہ حضرت طاہر کریمی کے سالانہ دورہ سیالکوٹ کا پروگرام ملا ۔جس میں اگلے روز اگوکی کے قریب گائوں قاضی چک میں آپ کی آمد کا پروگرام تھا اس دن جمعہ کی چھٹی تھی ان دنوں ہفتہ وار چھٹی جمعہ کو ہوا کرتی تھی مجھے حضرت صاحب کیساتھ ملاقات کرنے کا اشتیاق ہوا۔میں نے اپنے گائوں کے دوست محمدطفیل کھوکھر کیساتھ پروگرام بنایا کہ حضرت صاحب کیساتھ ملاقات کیجائے اس طرح چھٹی کا دن اچھا گزر جائے گا۔چنانچہ پروگرام کیمطابق طفیل صاحب میرے گھرتو آگئے لیکن بارش ہورہی تھی انھوں نے کہا کہ چلیں میں انھیں کہا کہ بیٹھیں چائے پی کر چلتے ہیں تاکہ بارش بھی کچھ کم ہوجائے ۔چنانچہ چائے پینے کے بعد بارش کچھ کم ہوئی لیکن جب ہم چلنے لگے تو بارش شروع ہوگئی آدھ گھنٹہ بعد بارش بند ہونے پر جب چلنے لگے تو بارش دوبارہ شروع ہوگئی ایسا تین چار بار ہوا کہ جب باہر نکلنے کا ارادہ کرتے تو بارش شروع ہوجاتی یہ سلسلہ دو اڑھائی گھنٹے تک چلتا رہا آخرکار بارش قدرے کم ہوئی تو ہم پیدل ہی قاضی چک گائوں کی جانب چل پڑے کم از کم چھ کلومیٹر کا فاصلہ تھا جو ہم نے پیدل طے کیا مزیدار بات یہ ہے کہ اس دوران بارش ایک بار پھر شروع ہوگئی تھی لیکن ہم راستے میں کہیں نہیں رکے ہم بارش سے بھیگتے ہوئے قاضی چک میں طفیل بٹ صاحب کے گھر پہنچے تو پتہ چلا کہ طفیل بٹ صاحب گھر نہیں کیونکہ بارش ہوجانے کیوجہ سے حضرت صاحب تشریف نہیں لاسکے اس لیے وہ حضرت صاحب کو ملنے کے لیے اگوکی چلے گئے جہاں حضرت صاحب کسی کے مرید کے ہاں تشریف رکھتے ہیں دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم اگوکی سے گزر کر قاضی چک پہنچے تھے لیکن ہمیں پروگرام کی تبدیلی کا معلوم نہیں تھا۔
چنانچہ ہم واپس اگوکی آئے۔یہ ایک بہت بڑا قصبہ ہے لیکن ہمیں یہ نہیں معلوم تھا کہ کس کے گھر میں تشریف فرما ہیں۔میں اور طفیل صاحب دوتین گھنٹے تک لوگوں سے حضرت صاحب کے بارے پوچھتے رہے لیکن کچھ پتہ نہ چلا ہم نے تھک کر گائوں واپسی کا ارادہ کرلیا کہ ایک چھوٹا سا بچہ نظر آیا میں نے اس سے پوچھا کہ یہاں کوئی پیر صاحب آئے ہوئے ہیںتمھیں ان کے بارے میں کچھ علم ہے تو اس نے کہا کہ میرے ساتھ آئیں وہ ہمیں لے کر ایک گھر میں داخل ہو گیا ہم جونہی گھر میں داخل ہوئے تو نہایت خوبصورت نورانی سیالکوٹ کا دورہ کریں گے تو آئیں گے۔اس پر خلیفہ صوفی غلام حیدر مرحوم آف مراکیوال نے میری سفارش کرتے ہوئے کہا کہ یہ لڑکا بڑا ہشیار ہے اور اسے آپ کو گھر بلانے کا بڑا اشتیاچہرہ حضرت صاحب مریدین اور عقیدمندوں کے جھرمٹ میں باہر آرہے تھے ان کیساتھ پندرہ بیس آدمی تھے ہم نے سلام کرنے اور ہاتھ ملانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے حکم ہوا کہ مسجد میں پہنچیں نماز جمعہ کا وقت ہورہا تھا ہم بھی ہجوم عاشقاں میں لوگوں کے پیچھے پیچھے اڈہ پر واقع جامع مسجد میں پہنچے جلدی جلدی وضو کیا اور نماز جمعہ ادا کی میں پینٹ شرٹ پہنی ہوئی تھی جو نماز کے لیے مناسب لباس نہ تھا مجھے حضرت صاحب کے بالکل پیچھے جگہ ملی نماز ادا کرنے کے فوری بعدانھوں نے میری طرف رخ پھیرا مجھے دیکھتے ہوئے بڑی محبت اور اپنایت سے حال احوال معلوم کیا اور پوچھا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں میں نے بتایا کہ یہاں سے چار پانچ کلومیٹر دور واقع گائوں جوڑیاں سے حاضر ہوا ہوں آپ سے ملنے کے لیے قاضی چک کا چکر بھی لگاکر آئے ہیں صبح سے بارش میں بھیگتے اور آپ کو ڈھونڈتے ڈھونٹتے تھک گئے ہیں۔
آپ نے مسکراتے ہوئے فرمایا ؛جو جسے تلاش کرلیتا وہ اسے پا لیتا ہے؛ اور ہم آپ کو مل گئے کہنے لگے بارش کیوجہ سے اچانک پروگرام تبدیل کرنا پڑا جس کی وجہ سے آپ کو تکلیف ہوئی لیکن آپ کو بارش میں میں بھیگنے اور سیر کرنے کا موقع مل گیا میرے دل میں میں بہت زیادہ خیالات اور سوالات تھے وہ سب مجھے بھول گئے ان کی محبت بھری گفتگو اور ملاقات سے ہماری پریشانی یکدم خوشی میں تبدیل ہوگئی ۔اس موقع پر حضرت صاحب کے ہمراہ خلیفہ صوفی غلام حیدر مرحوم آف مراکیوال اور دیگر مریدین اور عقیدتمندوں کی بڑی تعداد موجود تھی ۔میں محسوس کررہا تھا کہ یہ سب لوگ میرے لباس پینٹ شرٹ اور انداز گفتگو کو نامناسب خیال کررہے تھے ایک تو میں ابھی جوان تھا اور میں بزرگوں کی آداب محفل سے ناآشنا تھا لیکن حضرت صاحب بڑی خندہ پیشانی اور دلچسپی کیساتھ میری گفتگو سنتے رہے انھوں نے مجھے سب سے پہلا جو درس،حکم یا سبق دیا کہ نماز پڑھا کرو اور والدین کی خدمت کیا کرو میں نے انھیں درخواست کی کہ میرے گھر تشریف لائیں جس پر انھوں نے کہا کو ان شاء اللہ اگلے سال جب دوبارہ ق ہے اس کے گھر اسی دورہ کے دوران تشریف لے چلیں چنانچہ دو دن بعد اتوار کے روز میرے گھر تشریف لائے مجھے آداب محفل سے واقفیت نہیں تھی میں نے اپنی سوچ اور سمجھ کیمطابق چائے وغیرہ کا اہتمام کیا تھااس موقع پر صوفی غلام حیدر مرحوم نے میری راہنمائی اور مدد کی ایک چھوٹی سی محفل ہوئی ذکرپاک ہوا نعتۖ کے بعد درود وسلام پڑھا گیا جہاں میں باقاعدہ طور پر ان کی بیعت کرکے ان کی غلامی میں شامل ہوگیا۔
جب میں نے اپنے مرشد قبلہ پیر قاضی محمد طاہر کریمی کے ہاتھوں میں بیعت کی اس وقت میری عمر لگ بھگ بیس یا بائیس سال ہوگی بیعت ہونے کے 5/6 سال بعد میری شادی ہوئی تھی۔میں کم عمر اور ناسمجھ ہونے کیساتھ آداب مرشد سے بھی ناآشنا تھا۔اس کے باوجود حضرت صاحب میرے ساتھ خصوصی شفقت کرتے تھے ان کی میرے ساتھ خصوصی محبت اور شفقت کا یہ سلسلہ تمام عمر تک رہانماز کی تلقین کرتے اور کہتے کہ سادگی اور عاجزی اختیار کرو اللہ پاک کو بندے کا یہ عمل بہت پسند ہے اکثر فرماتے اسلام انسانوں کے لیے آسانیاں پیدا کرتا ہے آپ نبی کریمۖ نے اسلام تلوار اور سختی سے نہیں اپنے حسن اخلاق سے پھیلایاحضرت صاحب فرماتے لوگوں کیساتھ سختی سے نہیں نرمی کیساتھ پیش آئو۔وہ جب تک حیات رہے ہر سال باقاعدگی کیساتھ میرے گھر تشریف لاتے تھے میں ہمیشہ اپنی بساط سے بڑھ کر محافل میلادالنبی ۖ منعقد کرائیں۔ان محافل میں خلفائے کرام صوفی غلام حیدر مرحوم ، صوفی محمد اسحاق راقب کریمی مرحوم ، صوفی عبدالحمیدآف رائے پور اور صوفی محمد اسلم کریمی آف سدے چک تشریف لاتے تھے حضرت صاحب میرے ہاں خصوصی طور پر ایک روز قیام کرتے۔
اس موقع پر حجام کو بلایا جاتا جو انکی ریش مبارک اور بال سنوارتا۔ان کے کپڑے دھلوائے جاتے،وہ غسل کرتے اور لباس تبدیل کرتے۔میرے والدین اور بچوں سے خصوصی محبت اور شفقت فرماتے میر بچیاں بہت چھوٹی تھیں ان کے سروں پر خصوصی دست شفقت پھیرتے ہوئے دعا فرماتے،میرے دونوں بیٹے محمد عامرقیوم اور محمد عثمان قیوم بھی چھوٹے تھے جب حضرت صاحب گھر تشریف لاتے یہ دونوں بہت خوش ہوتے اور ان کی خدمت میں مصروف رہتے وہ میرے متعلق اکثر فرماتے تھے کہ یہ ہمارا بڑی محبت کرنے والا دوست ہے اس کے گھر آکر ہمیں آرام اور سکون ملتا ہے ان کے الفاظ میرے لیے ہمیشہ سرمایہ حیات رہیں گے یہاں ایک واقعہ بیان کرتا ہوں کہ میرے بڑے بیٹے محمد عامرقیوم کا نام قبلہ حضرت صاحب نے نیکا پورہ محلہ کی ایک مسجد میں چودھری محمدحسین گجر مرحوم مینجر سیالکوٹ کراچی گڈز کے زیراہتمام منعقدہ ایک محفل کے دوران رکھا یہ 1983ء کا واقعہ ہے کہ میں اپنے بیٹے کی پیدائش کی خوشخبری سنانے کے لیے مٹھائی لے کر حاضر ہوا یہ عشاء کی نماز کے بعد کا وقت تھا اور محفل زور و شور سے جاری تھی میری خواہش تھی کہ میں حضرت صاحب کو مٹھائی پیش کرکے جلد واپسی کرلوں کیونکہ میرا گھر یہاں سے کم از کم بارہ یا تیرہ کلومیٹر واقع تھا سخت سردی تھی اس وقت میرے پاس بائیسکل ہوتی تھی انھیں خیالوں میں مسجد میں داخل ہوا مجھے حضرت صاحب نے دیکھ لیا انھوں نے مجھے اپنے پاس اسٹیج پر آجانے کا اشارہ کیا محفل میں بہت رش تھا میں کسی نہ کسی طرح ان کے پاس پہنچ گیا اپنے پاس بٹھالیا اور پوچھنے لگے اتنی سخت سردی میں اور رات گئے اتنی دور آگئے ہو میں نے عرض کی حضرت صاحب اللہ پاک نے آپ کی دعا سے مجھے بیٹا عطا کیا ہے مٹھائی لایا ہوں محفل جاری تھی اور وہ میرے ساتھ باتیں بھی کرتے جارہے تھے حاضرین بھی بڑے غور سے دیکھ رہے تھے اس دوران انھوں نے مجھے مبارک دی مٹھائی کا ڈبہ کھولا دعا فرمائی مٹھائی خود بھی کھائی اور اپنے قریب بیٹھے لوگوں کو بھی کھلائی مجھے کہنے لگے آپ کا گائوں بہت دور ہے اس لیے مجھے گھر جانے کی اجازت ہے میں نے عرض کیا کہ بیٹے کا نام تجویز کردیںجس پر انھوں نے محفل کے دوران جب درود و سلام اور نعت خوانی کا سلسلہ جاری تھااسی دوران میرے بیٹے محمدعامر قیوم کا نام تجویز کیا اس کے بعد انھوں نے دوران محفل ہی دوبارہ دعا فرمائی ۔یہ حضرت صاحب کا خصوصی کرم ہے کہ محمدعامرقیوم کونہ صرف صاحبزادہ پیر قاضی محمد طارق عثمانی کریمی سجادہ نشین دربار کریمی کے دست مبارک پر بیعت کا شرف حاصل ہو ا بلکہ اسے مرشد کی خصوصی فیض بھی ملا وہ جوانی میں سنت رسولۖ داڑھی سجائے نماز روضے کا پابند ہے۔
اسی طرح میرا چھوٹا بیٹا جو پولیس ملازم ہے ابھی بیعٹ نہیں ہوا لیکن حضرت صاحب کا بہت تابعدار اور خدمت گزار ہے۔میرے مرشد قبلہ حضرت طاہر کریمی کی خصوصی نگاہ کرم کا اثر ہے کہ اللہ پاک نے مجھے مجھے والدین کے سایہ رحمت،بہن بھائیوں،دوست و احباب کی محبت،شفقت کیساتھ فرمانبردار اولاد سے نوازا ہے مجھے نبی کریم ۖ کی محبت اور عشق عطا فرمایااللہ پاک نے اپنے حبیبۖ کے صدقے اور میرے مرشد پاک کی دعائوں سے مجھے بیشمار دنیاوی مصیبتوں،آزمائشوں ، سختیوں اور بیماریوںسے محفوظ رکھا دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی کبریائی کے صدقے اپنے حبیبۖ آل نبیۖ اور میرے مرشد و رہبر قبلہ حضرت قاضی محمدطاہر کریمی اور اس گھرانے سے میری محبت و عشق کا رشتہ ہمیشہ قائم و دائم رکھے۔ میری یہ خوش قسمتی ہے کہ پیرطریقت میرے مرشد و رہبر قبلہ حضرت قاضی محمدطاہر کریمی کے بعد مجھے صاحبزادہ حضرت طارق عثمانی کریمی سجادہ نشین دربار کریمی کی بھی خصوصی نظرعنایت اور شفقت حاصل ہے بلکہ وہ اس سلسلے کو پہلے سے بھی زیادہ آگے بڑھا رہے ہیں۔
اللہ پاک انھیں اچھی صحت کیساتھ لمبی عمر عطا فر مائے۔میں جب کبھی حضرت صاحب کی خمت میں سلام پیش کرنے کے لیے حاضر ہوتا تو وہ میرے ساتھ خصوصی برتائو کرتے حاضرین سے میرا تعارف کراتے اور اپنے قریب جگہ دیتے اگر محفل یا پروگرام رات کا ہوتا تو تھوڑی دیر بعد کہتے کہ تمھارے بچے چھوٹے ہیں گھر جائوان کے وصال کے بعد قبلہ پیر حضرت طارق عثمانی کریمی بھی میرے ساتھ حضرت صاحب کی طرح خصوصی شفقت اور محبت کا اظہار کرتے ہیںجس کے لیے میں جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے یہ کرم نہیں تو کیا ہے میں اپنے رب کے حضور دعاگو ہوں کہ وہ اپنے پیارے محبوبۖ کے صدقے جناب قبلہ پیرطریقت حضرت طارق عثمانی کریمی کا سایہ شفقت ہمارے سروں پر قائم رکھے اور آستانہ عالیہ دربار کریمی واہ کینٹ کا فیض رہتی دنیا تک جاری و ساری رہے۔آپ کا سالانہ عرس مبارک ہر سال 10ْْاور 11 ستمبر کو آستانہ عالیہ دربار کریمی لوسر میرا واہ کینٹ میں منایا جاتا ہے جس میں ملک بھر سے معروف علماء کرام،نعت خوانۖ،مریدین اور عقیدتمند شریک ہوتے ہیں۔اور روحانی فیوض و برکات سے فیض یاب ہوتے ہیں۔