میں نے فون کھولا تو بلو چستان کے دور افتادہ علاقے بارڈر کے پاس سے کریم نظامی کا فون مسلسل آرہا تھا میں نے فون آن کیا تو نظامی صاحب کے مٹھاس بھرے ٹوٹے پھوٹے الفاظ سماعت کو صوفیانہ چاشنی کا احساس بخشنے لگے صوفیانہ مٹھاس میں بولے پروفیسر صاحب دو تین دن سے مسلسل آپ کو کال کر رہا ہوں آج فون لگا تو میں مسکر ا کر بولا نظامی صاحب آپ کے فون سے پتہ چل گیا صفر کا مہینہ اور سید علی ہجویری کا سالانہ عرس مبارک ہے تو نظامی صاحب نے مزید سماعتوں میں رس گھو لا آپ بجا فرما رہے ہیں شہنشاہ ولایت اولیاء اللہ کے سردار سید علی ہجویری کا سالانہ عرس مبارک آگیا ہے اُس سلسلے میں چند دن تک لاہور آرہا ہوں آپ کے خشک میوہ جات بھی لیتا آئوں گا اور بلوچستان سے کسی چیز کی ضرورت ہے تو ضرور حکم فرمائیں مجھے خوشی ہو گی آپ سے ملاقات بہت ضروری ہے میرا بیٹا آپ کی نئی کتاب کرشمہ نام کا ذکر کر رہا تھا جس کا اُس کو اور مجھے بہت انتظار تھا آپ سے کتاب لینے حاضر ہوں گا پھر بہت ساری مٹھاس بھری باتیں کرنے کے بعد کریم نظامی صاحب کا فون بند ہو گیا۔
نظامی صاحب سے میری پہلی ملاقات چند سال پہلے ہوئی جب وہ اِسی طرح سید علی ہجویری کے سالانہ عرس مبارک پر لاہور تشریف لائے تھے ملاقات میںجب انہوں نے بتایا کہ وہ سید علی ہجویری کے بہت ماننے والے ہیں اُن کے والد صاحب اور دادا جان پچھلے کئی سالوں سے سید علی ہجویری اور بابا فرید گنج شکر کے سالانہ عرسوں پر تواتر سے آرہے ہیں کریم صاحب کا خاندان صدیوں سے سلسلہ چشت میں حضرت نظام الدین اولیاء کے خلیفہ سے بیعت ہے جب وہ روحانیت اور سلسلہ چشت کے ساتھ اپنی عقیدت اور وابستگی کا اظہار کر رہے تھے تو میں حیرت سے سن رہا تھا کہ پاکستان کے دو ر دراز علاقوں میں جہاں پر آج بھی جہالت کے سائے منڈلاتے ہیں کس طرح لوگ اولیاء اللہ سے عقیدت وابستگی رکھتے ہیں میں نے جب اپنی حیرانی کا اظہار پہلی ملاقات میں کریم نظامی صاحب سے کیا تو پر جوش لہجے میں بولے میں ایک اسلامی مدرسے کو چلاتا ہوں ہمارے علاقے میں زیادہ تعداد روحانیت کے منکرین کی ہے لیکن پھر بھی وہاں پر اولیاء اللہ اور سید علی ہجویری کے چاہنے والے عقیدت مند موجود ہیں۔
کریم نظامی صاحب جب بھی آتے اپنے چند دوستوں یا مریدوں کے ساتھ آتے اسطرح یہ چھوٹا سا قافلہ شوق ہر سال بعد علی ہجویری کے سالانہ عرس میں ہزاروں میل دور سے اپنی عقیدت کا اظہار کرنے آتا ہے جس طرح کریم نظامی بلوچستان کے دور دراز علاقے سے سید علی ہجویری کو سلام کرنے آتے ہیں اسی طرح پاکستان سے بلکہ دنیا بھر سے سید علی ہجویری کے دیوانوں کا سیلاب عرس مبارک کے وقت مزار پر انوار پر غلاموں کی طرح حاضر ہو کر اپنی عقیدت و محبت کا گہرا اظہار کرتا ہے سید علی ہجویری کی پیدائش 400ھ غزنی افغانستان میں ہوئی آپ کا سلسلہ نسب براہ راست حضرت امام حسین سے ملتا ہے سلطان محمود غزنوی کے دور حکومت میں اپنے مرشد ابوالفضل ختلی کے حکم پر 431ھ میں لاہور تشریف لائے تبلیغ اسلام کے لیے بہت ساری مشکلات کا سامنا کیا لوگ عقیدت سے سرشار آپ کو داتا گنج بخش کہا کرتے تھے لیکن آپ عاجزی سے ہمیشہ فرمایا کرتے داتا تو صرف ایک ہی ذات ہے اللہ ۔ لاہور شہر میں تشریف لا کر آپ نے تبلیغ اسلام کا کام زور شور سے شروع کر دیا جہالت بت پرستی میں غرق انسانوں کو صراط مستقیم کی دعوت شروع کر دی آپ نے تصوف کے موضوع پر تاریخ تصوف کی عظیم ترین کتاب کشف المحجوب لکھی جس سے لاکھوں متلاشیان حق نور معرفت حاصل کر کے اپنے باطن کو نور کے اجالوں سے روشن کر چکے ہیں حق تعالی نے سید علی ہجویری کو وہ لازوال شہرت عطا کی کہ بعد میں آنے والے ہر دور کے سالکین نے آپ کی کتاب اور مزار پر انوار پر چلہ کشی کی ۔آپ کے ڈیڑھ سو سال بعد تاریخ ہندوستان کے عظیم بزرگ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری بھی چلہ کشی کی نیت سے آکر چلہ کش ہو ئے پھر اپنا دامن معرفت کے نور سے بھر کر واپس جاتے ہوئے مشہور شعر کہا۔
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا ناقصاں را پیر کامل کاملاں را راہنما
جس کو نور معرفت کی تلاش ہو مرشد نہ ملتا ہو وہ یہاں آکر اپنا دامن نور معرفت سے بھر لے
آپ اپنے بارے میں اپنی کتاب کشف الاسرار میں فرماتے ہیں اے علی تجھے لوگ داتا کہہ کر پکارتے ہیں اور تو اپنے پاس ایک دانا بھی نہیں رکھتا اِس بات کا اپنے دل میں خیال تک نہ لا کیونکہ خزانے دینے والی ذات تو صرف خدا کی ہے اور تم اُس کے عاجز بندے ہو اُس کے ساتھ شرک نہ کر بیٹھنا ورنہ دونوں جہاں برباد ہو جائیں گے یہ خیالات ایک عاجز درویش کے تھے جس کو دنیا داتا صاحب کے نام سے پکارتی ہے روحانیت تصوف کے منکرین آجکل اولیاء اللہ پر بہت زیادہ تنقید کے گولے بر سارہے ہیں یہ بیچارے نہیں جانتے کہ جو لازوال شہرت عزت آسمان کے مالک نے سید علی ہجویری کو دی ہے یہ بڑے بڑے سلطانوں کو نصیب نہیں ہوئی کیونکہ ہزار سال ہونے والا ہے سید علی ہجویری کی شہرت کا سورج ہر گزرتے دن کے ساتھ پہلے سے زیادہ روشن ہو تا جارہا ہے منکرین روحانیت کیڑے مکوڑوں کی طرح گردش ایام میں مسلے جائیں گے کوئی اِن کا نام لینے والا نہیں ہو گا لیکن صدیوں کی الٹ پلٹ وقت کی آندھی سید علی ہجویری کی شہرت کے چراغ کو کبھی نہیں بجھا پائے گی کیونکہ یہ شہرت اللہ تعالی نے سید علی ہجویری کو عطا کی ہے ایک سے بڑھ کر ایک بادشاہ حکمران کرہ ارضی پر اپنے مختصر وقت کے لیے آیا پھر وقت کے اندھے غار میں گم ہو گیا لیکن سید علی ہجویری کی شہرت ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے آپ کے دیوانوں کی تعداد ہر گزرتے دن بڑھتی جا رہی ہے دنیا بھر سے آپ کے دیوانے ہر سال آپ کے مزار پر اپنی عقیدت کے پھول نچھاور کرنے آتے ہیں شاعر مشرق نے کیا خوب کہا تھا۔
خاک پنجاب از دم و زندہ گشت پنجاب کی زمین اُس کے دم سے زندہ ہو گئی
Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti
تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ای میل: help@noorekhuda.org فون: 03004352956 ویب سائٹ: www.noorekhuda.org فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org