تحریر : زاہد محمود مؤرخہ 5 جون 2015 کو ملک کے نامور صحافی جاوید چودھری کا کالم پڑھا جس میں انھوں نے انفراسٹکچر کی اہمیت بیان کی اور کہا کہ امریکہ، جاپان، برطانیہ اور فرانس اپنے انفراسٹکچر کی وجہ سے ہم سے آگے ہیں اور ہمیں میاں صاحب کا مشکور ہونا چاہئے کہ انھوں نے ہمیں شیر شاہ سوری اور انگریزوں کی طرح ایک انفراسٹکچر دیا لیکن ہم ان پر تنقید کے نشتر چلا رہے ہیں، اپنی اور اپنی فیملی کی جان کی امان پانے کے بعد جاوید چودھری صاحب سے اختلاف کی جسارت کر رہا ہوں۔
میں یہاں ایک بات واضح کرتا چلوں کہ جاوید چودھری ایک سیلف میڈ شخصیت ہیں جنکو اپنی پہلی تنخواہ کا چیک جب ملا تو انکو یقین نہیں آرہا تھا ایک نہایت ہی قابل احترام شخصیت لیکن وہ تجزیہ کرنے میں غلطیاں کرنے لگے ہیں چونکہ وہ اب ایک عام آدمی اور متوسط طبقے کی کلاس سے اوپر جا چکے ہیں اس لئے انکا رابطہ ایک عام آدمی سے کٹ چکا ہے اور تجزیہ کرنے میں بھی غلطیاں کر رہے ہیں اپنی کچھ گزارشات اپنے اس کالم کے ذریعے ان تک اور اپنے معزز قارئین تک پہنچانا چاہتا ہوں۔
سب سے پہلے میں آ پکو اس معاشرے کا ایک واقعہ سناتا ہوں مرے ایک جاننے والے ہیں انکے ریسٹورنٹ میں ایک نوجوان جسکی عمر 34 سال ہے کام کرتا ہے اسکے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اسکا موٹر سائیکل پر حادثہ ہوا اور صحیح علاج نہ ہونے کی وجہ سے اسکی ریڑھ کی ہڈی میں کینسر کی شکایت ہوگئی ہے میرے دوست نے مجھ سے شوکت خانم ہسپتال میں علاج کا طریقہ کار پوچھا میں نے بتا دیا کہ مفت علاج کا طریقہ یہ ہے کہ ایک فارم لیں وہاں سے جو زکوٰة کمیٹی کے سربراہ سے تصدیق کروائیں اور علاج شروع مگر اس نوجوان کا جواب مجھے لاجواب کر گیا کہتا ہے کہ میں لاہور جانا آنا کروںگا اور زکوٰة فارم کی تصدیق کرواؤں گا تو میرے کافی دن ضائع ہوجائیں گے اور میرے پاس اتنے دنوں کا ذخیرہ نہیں کہ گھر میں میرے بچے اتنے دن گزارا کر سکیں اور پھر علاج میں نہ جانے کتنا عرصہ لگ جائے مرے بچے اس عرصے میں نہ جانے کیا کریں گے میں اپنے جیتے جی اپنے بچوں کو کسی کے سامنے ہاتھ پھیلا تا نہیں دیکھ سکتا زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا مر جاؤںگا مرنے کے بعد مرے اوپر کوئی بوجھ نہیں ہوگا۔
جناب آپ کے مطابق امریکا اپنے انفراسٹرکچر کی وجہ سے امریکہ ہے جبکہ میرے خیال میں امریکہ نے اپنے آئین اور قانون پر عملدرآمد کیا لوگوں کو بنیادی انسانی حقوق دیے وہاں نسلی ،لسانی اختلافات کو ختم کیا، تعلیم اور تحقیق پر اپنے خزانے کے منہ کھول دئے ، اپنے عدالتی نظام میں موجود خامیوں کو دور کیا ، ایک بہترین سیاسی نظام دیا اپنے معاشی طور پر مضبوط لوگوں سے ٹیکس وصول کیا اور اپنے معاشی طور پر کمزور لوگوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا عوام کے ٹیکس کا پیسہ انکی امانت سمجھ کر استعمال کیا کرپشن اور ابدعنوانی کرنے والوں کو کڑی سے کڑی سزا دی جاتی ہے ایک ایسا نظام بنایا جہاں بچے اور بوڑھے ریاست کی ذمہ داری میں ہوتے ہیں۔
UK Infrastructure
آپ کے مطابق برطانیہ برطانیہ اس وجہ سے ہے کہ اسکا انفراسٹرکچر مضبوط ہے لیکن بطور سیاست اور صحافت کا طالبعلم میرے خیالات آپ سے متصادم ہیں میرے خیال میں برطانیہ نے اپنے لوگوں کو بہترین نظام تعلیم دیا ہے ایک ایسا نظام جس میں دار الخواص بھی ہے جس میں انکے مفادات کا تحفظ ہو اور دارالعوام بھی جہاں ملک میں موجود اکثریت کے فیصلے انکے نمائندے کریں جو کہ حقیقت میں انکے نمائندے ہوں ہماری طرح جاگیردار اور سرمایہ دار نہیں انکا وزیر اعظم جتنے گھر میں رہتا ہے اتنے گھرمیں ہمارے 16 ویں گریڈ کا افسر بھی رہتے ہوئے اپنی توہین سمجھتا ہوگا کجا کہ ہمارے حکمران اتنے چھوٹے گھر میں رہیں ان تمام ملکوں کے حکمرانوں کا جینا مرنا اس ملک میں ہوتا ہے وہاں انکے سیاستدانوں کا پیسہ اپنے ملک میں ہوتا ہے وہ اپنے ملک میں سرمایہ کرتے ہیں وہاں پر امن احتجاج کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور انکے تمام جائز مطالبات مان لئے جاتے ہیں تاکہ لوگ پر تشدد احتجاج کی طرف نہ جائیں ان احتجاج کرنے والوں پر تشدد نہیں کیا جاتا۔
عراق جنگ کے خلاف ملین مارچ ہوا حالانکہ وہ حکومت کی پالیسی کے خلاف تھا حقیقی ملین مارچ اور اسکو اگر برطانیہ کی آبادی کے حساب سے دیکھا جائے تو اسکا اندازہ لگانا مشکل نہیں اپنی حکومت کی پالیسی کے خلاف کہ کتنے لوگ نکلے جناب آپ نے اپنے کالم میں جاپان کا بھی ذکر کیا کہ وہ بھی انفراسٹکچر کی وجہ سے جاپان ہے لیکن میری ناقص رائے اس سے مختلف ہے جاپان نے جس تیزی سے ترقی کی وہ صرف اور صرف تعلیم اور تحقیق کی بدولت ہے انتھک محنت اور نوجوانوں کی تربیت اسکا خاصہ رہا ہے۔
جبکہ ہمارے نوجوان کے پاس مستقبل کے لئے کوئی امید نہیں نہ ہی کوئی ایسے ادارے ہیں جو نوجوانوں کی تربیت کریں اور اسکے بعد انکی تربیت سے فائدہ اٹھائیں ہمارا نوجوان آج راتوں رات امیر بننے کے چکر میں ہے وہ نئی چیزوں کی تلاش میں سرگرداں نظر نہیں آتا وہ یا تو پڑھ لکھ کر ملک سے باہر جانے کو ترجیح دے رہا ہے یا کوئی ہنر سیکھ کر گلف کے ممالک میں جانے کو بے چین ہے حالانکہ جن مشکل حالات کا اسے وہاں سامنا ہے انکا تذکرہ کرنے کی ضرورت نہیں لیکن وہ اپنے اور اپنے خاندان کے بہتر مسقبل کے لئے وہ تمام مصائب برداشت کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔
Labor Laws
سوال یہ ہے کہ وہ ان ممالک کا رخ کیوں کر رہا ہے اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ جتنی مرضی محنت کر لے وہ یہاں نہ تو اتنے پیسے کما سکتا ہے کہ باعزت زندگی گزار سکتا ہے اور نہ ہی وہ یہ قبول کرنے کو تیار ہے کہ ہماری حکومتیں اور ریاست اسکے مفادات کا تحفظ کر سکتی ہے وہ اپنے بچوں کو اچھے سکولوں میں پڑھانا چاہتا ہے وہ یہ نہیں چاہتا کہ اسکے اپنے علاج کے لئے پیسے نہ ہونے کی وجہ سسک سسک کر مر جائیں۔
یہاں لیبر قوانین پر کسی قسم کا کوئی عملدآمد نہیں نہ ہی سوشل سیکورٹی کی بات کی جاتی ہے اور نہ ہی کسی ٹھیکیدار کے پاس کام کرنے والے کو بڑھاپا الاؤنس ملتا ہے ایک 55 سال کا شخص جس نے ساری زندگی مزدوری کرتے ہوئے گزاردی مجھے مرے گاؤں میں ملا کہنے لگا یار تم لوگوں کو پتہ ہے کہ یہ بے نظیر والے پیسے کیسے ملتے ہیں میں آنکھوں سے معذور ہو چکا ہوں بچے میرے کرشنگ پلانٹ پہ کام کرتے ہیں اور بڑی مشکل سے گزارہ کرتے ہیں میں ان پر بوجھ نہیں بننا چاہتا مرے پاس انکے ساتھ انکے حق کے لئے آواز اٹھانے کے وعدے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا۔
جناب جاوید چودھری صاحب جس دن ہمارے حکمرانوں ایک عام آدمی کے درد کو سمجھ لیا اور اس کے لئے کام کرنا شروع کر دیا تو یقین مانیں کہ چند لوگوں کے بجائے کروڑوں لوگ ان کے لئے جھولیاں اٹھا اٹھا کر دعائیں کریں اور ہمارے حکمرانوں کو آپ جیسے صحافی تنقید کے نشتر چلا کر راہ راست پر لا سکتے ہیں اور آپکے حصے کے دعائیں بھی آپکو ملتی رہیں گی۔