تحریر : میر شاہد حسین ذہن میں اٹھنے والے سوالات اور شبہات پہلے کیا کم تھے جو میڈیا ٹاک شوز کے بعد اُن میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ ہر شخص کے پاس ایک سوال ہے اور جواب میں ایک اور سوال ہے۔ یہ سوالات کا سلسلہ کچھ ایسا چل نکلا ہے کہ عام انسان کا ذہن انتشار کا شکار ہو کر رہ گیا ہے۔ ایسے میں بے شمار سوالات کے درمیان ایک اہم سوال یہ بھی پیدا ہو گیا ہے کہ جواب کون دے گا؟ میرے خیال میں ایسا صرف اسی معاشرہ میں ہوتا ہے جہاں کوئی بھی اپنی ذمہ داری محسوس نہ کرے اور اپنی ذمہ داری اور غلطی کو دوسروں پر ڈال کر خود کو بری سمجھنے کا رجحان ہو۔ میڈیا پر کسی حکومتی نمائندے سے سوال کیا جائے کہ حالات کیوں قابو نہیں ہو رہے تو اس کا پہلا جواب تو یہی ہوگا کہ ایسا ہے ہی نہیں اور اگر مان بھی لیا جائے تو اس میں اپوزیشن کا قصور ہے۔
اپوزیشن تو پہلے ہی سوال لے کر بیٹھے ہیں اور پھر ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے کھینچتے وقت پورا ہوگیا اور سوال وہیں کا وہیں موجود ہے۔ جوازبدتر از گناہ کے مصداق جواب ملتا ہے۔ جیسے انہوں نے استعفیٰ نہیں دیا تو ہم کیوں دیں؟ ہم نے کرپشن کی ہے تو کیا ہوا؟ انہوں نے بھی تو کی ہے۔ پہلے اسے گرفتار کریں۔
Corruption
میں نے اپنے بچے کو آواز دی کہ بیٹا ادھر آؤ۔ اس نے وہیں سے جواب دیا جی آیا۔ لیکن آیا پھر بھی نہیں۔ پھر میرے غصہ کو دیکھ کر جب بادل نخواستہ آیا بھی تو میں نے اسے کوئی کام کرنے کو کہا۔ وہ جی کہہ کر چلا گیا۔ لیکن پھر کافی دیر تک وہ نہیں آیا تو میں نے پھر بلایا۔ وہ پھر بادل نخواستہ آیا۔ میرے غصہ پر کہنے لگا کہ میں آپ کے حکم کا احترام کرتا ہوں۔ میں نے کہا کہ یہ کیسا احترام ہے کہ بات تو مانی ہی نہیں اور احترام اپنی جگہ قائم ہے۔
ہماری حکومتیں بھی کچھ ایسے ہی احترام پر یقین رکھتی ہیں اور بڑے فخر سے کہتی ہیں کہ ہم نے عدالتوں پر حملہ نہیں کیالیکن کیا یہ کم ہے کہ عدالتوں کے احکامات کو صرف نظر کرکے خود جج بن کر بیٹھ جایا جائے۔ میرے نزدیک یہ رویہ کسی حملہ سے کم نہیں ہے۔ کیونکہ حملہ صرف ایک بار کیا جاتا ہے اور کسی کی اہمیت کو ہی ختم کرکے رکھ دینا حملہ کرکے قتل کردینے کے مترادف ہے۔
ماضی سے لے کر آج تک بے شمار سانحات اور حادثات رونما ہوئے لیکن ہم نے کسی ایک کا بھی جواز تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی بدقسمتی سے کسی کو کسی واقعہ کا قصور وار ٹھہرایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ حادثات تھمنے کے بجائے بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں۔
غلطی انسانی کمزوری ہے اور یہ زندگی کا حصہ ہے لیکن اس کا اعتراف نہ کرنے کی بڑی وجہ سزا کا خوف اور پشیمانی ہے۔ ہم ایسے لوگوں کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے جو اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہیں۔
Quaid-e-Azam
قائد اعظم جیسے عظیم رہنما پہلے کانگریس میں تھے لیکن جب انہیں حقیقت کا ادراک ہو گیا تو انہوں نے کانگریس چھوڑنے میں بالکل تاخیر نہ کی۔ ہم اپنی منزل کا تعین کرتے ہیں اور اس کے لیے کسی بھی ایسی پارٹی کا انتخاب کرتے ہیں جو آپ کے خیال میں اس کے حصول میں معاون ہو سکے لیکن اگرآپ محسوس کریں کہ پارٹی کسی اور سمت میں سفر کررہی ہے اور آپ جانتے بوجھتے اسی میں سفر کرتے رہیں تو یہ کدھر کی دانشمندی ہے۔یہ اور بات ہے کہ ہم پارٹی کو ہی اپنی منزل بنا لیں۔
زندگی کسی ایک مقصد کے گرد گھومتی ہے۔ اب یہ مقصد ذاتی مفاد بھی ہو سکتا ہے، پیسے کا حصول بھی ہوسکتا ہے، طاقت کا حصول بھی ہوسکتا ہے، خودنمائی کا شوق بھی۔ ہماری حالت ایسی شاہراہ کی سی ہے جس پر ٹریفک جام ہے اور ہر کوئی اپنا ہارن بجا کر راستہ لینا چاہتا ہے۔ جس کا دل جدھر چاہتا ہے اپنی گاڑی نکالنے کی فکر کرتا ہے بلا سوچے سمجھے کہ جب تک آپ راستہ نہیں دیں گے۔
آپ کو بھی راستہ نہیں ملے گا۔ اسی کشمکش میں وقت کا ضیاع بھی ہورہا ہے اور منزل کی طرف سفر بھی رک کر ذاتی مفاد میں الجھ کر رہ گیا ہے۔کوئی لیڈر نہیں جو ہمیں منظم کرکے ہمیں اس الجھن سے نکال سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر شخص اپنی اپنی جگہ جو سمجھ میں آتا ہے بند راستہ کھولنے کی کوشش کرتا ہے لیکن راستے ایسے نہیں کھلا کرتے۔ اس کے لیے کسی ایک ہاتھ کی ضرورت ہوتی ہے جس کے کہنے پر چلا جائے اور اسی کے کہنے پر رکا جائے۔ورنہ اس طرح سو سال بھی گزر گئے تو ہم اسی بند شاہراہ پر اپنی زندگی کا ایندھن ختم کردیں گے۔