انٹارکٹکا (جیوڈیسک) سائنسی مشن پر گامزن اکیڈمک شوکالسکی نامی بحری جہاز کرسمس کے دن سے انٹارکٹکا میں پھنسا ہوا ہے اور اب تک برف توڑنے والے تین بحری جہاز اس کی مدد کے لیے بھیجے گئے ہیں لیکن یہ تینوں مہمات ناکام رہی ہیں۔ آسٹریلیا کی میری ٹائم ایجنسی نے بیان میں کہا ہے کہ آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے ’آئس بریکر‘ جہاز ارورا آسٹریلس نے جائے وقوعہ تک پہنچنے کی کوشش کی لیکن موسم خراب ہونے کی وجہ سے اسے واپس آنا پڑا۔
میری ٹائم ایجنسی کے مطابق علاقے میں اس وقت برفانی بارشیں ہو رہی ہیں اور تاحال یہ واضح نہیں کہ آسٹریلوی جہاز کب تک روسی بحری جہاز تک پہنچ پائے گا۔روسی بحری جہاز پر موجود بی بی سی کے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ علاقے میں تند و تیز ہوائیں چل رہی ہیں اور دیکھنے کی صلاحیت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔
اس سے قبل چینی اور فرانسیسی برف شکن جہاز بھی متاثرہ بحری جہاز تک پہنچنے کی ناکام کوششیں کر چکے ہیں۔متاثرہ جہاز آسٹریلیشین انٹارکٹک سائنسی مہم میں شریک ہے اور اطلاعات کے مطابق اس پر 74 افراد موجود ہیں جن میں سائنسدان اور سیاح شامل ہیں۔یہ تحقیقی جہاز اس راستے پر اپنا سفر طے کر رہا ہے جس پر تقریباً ایک سو سال قبل آسٹریلوی مہم جو ڈگلس موسن نے سفر کیا تھا۔روسی جہاز انٹارکٹکا میں فرانسیسی سٹیشن سے 100 ناٹیکل میل کی دوری پر پھنسا ہوا ہے۔اطلاعات کے مطابق یہ جہاز برف کی اس دبیز چادر کے درمیان پھنسا ہے جو تیز ہواو ¿ں کے نتیجے میں وہاں پہنچی تھی۔
سائنسی اور تحقیقی ٹیم کے سربراہان کرس ٹرنی اور کرس فوگول کے مطابق شوکالسکی جہاز میں غذا کافی مقدار میں موجود ہے اور اسے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔یہ جہاز وقتی طور پر پھنسا ہوا ہے تاہم سائنسدان اپنے تجربات میں مشغول ہیں۔ سائنسدان برف میں شگاف کے ذریعے درجہ حرارت اور شوریت کی جانچ کر رہے ہیں۔سائنس کے رضاکار شون بورکووک نے بی بی سی کو بتایا: ’یقینی طور پر ہم اسے ہمیشہ یاد رکھیں گے۔
ہمیں بہترین روشنی دیکھنے کو ملی ہے اور موسم بھی بہت حد تک معتدل ہے۔ جہاز ٹھوس نظر آ رہا ہے اور میرے خیال میں ہم اچھی حالت میں رہیں گے۔عصر حاضر کے اس آسٹریلیشین انٹارکٹک مہم کا مقصد ایسی پیمائشوں کی دوبارہ جانچ کرنی ہے جسے تقریباً ایک صدی قبل موسن مہم کے دوران کیا گیا تھا۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکے گا کہ ان راستوں اور علاقوں میں گذشتہ ایک صدی میں کس طرح کی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔