اسلام آباد (جیوڈیسک) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے اینٹی منی لانڈرنگ اور فارن ایکسچینج ریگولیشن بل 2019 کی منظوری دے دی۔
اینٹی منی لانڈرنگ بل میں مشکوک ترسیلات زر فوری رپورٹ کرنے، 180روز کا ریمانڈ، سزا پانچ سال سے بڑھا کر 10 سال کرنے کی تجاویز شامل ہیں جنہیں منظور کرلیا گیا ہے۔
کمیٹی کے چیئرمین اسد عمر کا کہنا ہے کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے پاکستان کے ساتھ امتیازی رویہ اختیار کررکھا ہے، جو کچھ کرنے کیلئے کہا جارہا ہے کسی اور ملک سے مطالبہ نہیں کیا گیا۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس اسد عمر کی سربراہی میں ہوا، کمیٹی ارکان نے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کی غیر حاضری پر تحفظات کا اظہار کیا تو چیئرمین کمیٹی اسد عمر نے کہا کہ مشیر خزانہ زیادہ اہم کام میں مصروف ہیں تاہم میرے سوا کبھی کوئی وزیرخزانہ کمیٹی اجلاس میں نہیں آیا۔
رکن کمیٹی عائشہ غوث پاشا نے کہا ایف اے ٹی ایف کی آڑ میں سخت قوانین بنائے جارہے ہیں، اس پر اسدعمر نے کہا ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کے ساتھ امتیازی رویہ اختیار کر رکھا ہے، جو کچھ کرنے کیلئے پاکستان کو کہا جارہا ہے کسی اور ملک کو نہیں کہا جارہا۔
اجلاس میں فارن ایکسچینج ریگولیشن ترمیمی بل 2019 پر بحث کے دوران ڈائریکٹر جنرل فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) بشیر میمن نے بتایا کہ اندرون ملک 10 ہزار ڈالرز تک کی رقم کی نقل و حرکت پر اسٹیٹ بینک سے اجازت لینا ہوگی، ایک منی چینجر نے کراچی میں 16 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی۔
خیال رہے کہ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ دہشتگردوں کی مالی معاونت روکنے کیلئے تسلی بخش اقدامات کرے بصورت دیگر اسے بلیک لسٹ ممالک کی فہرست میں شامل کیا جاسکتا ہے۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے ارکان کی تعداد 37 ہے جس میں امریکا، برطانیہ، چین، بھارت اور ترکی سمیت 25 ممالک، خیلج تعاون کونسل اور یورپی کمیشن شامل ہیں۔
تنظیم کی بنیادی ذمہ داریاں عالمی سطح پر منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے لیے اقدامات کرنا ہیں۔
عالمی واچ لسٹ میں پاکستان کا نام شامل ہونے سے اسے عالمی امداد، قرضوں اور سرمایہ کاری کی سخت نگرانی سے گزرنا ہوگا جس سے بیرونی سرمایہ کاری متاثر ہوگی اور ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
خیال رہے کہ اس سے قبل 2012 سے 2015 تک بھی پاکستان ایف اے ٹی ایف واچ لسٹ میں شامل تھا۔