اسلام آباد (جیوڈیسک) سابق صدر آصف علی زرداری کے دستِ راست سمجھے جانے والے معروف تاجر و صنعت کار انور مجید کو آج ایف آئی اے کی طرف سے حراست میں لیے جانے پر ملک کے کئی حلقوں میں یہ بات گردش کر رہی ہے کہ پی پی پی کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔
انور مجید اور ان کے بیٹے کو آج منی لانڈرنگ سے متعلق ایک مقدے کی سماعت کے بعد سپریم کورٹ کے باہر حراست میں لیا گیا۔ اس مقدمے میں آصف علی زرادی اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کا نام بھی لیا جارہا ہے جب کہ سابق صدر کے ایک اور قریبی دوست حسین لوائی پہلے ہی اس مقدمے میں ایف آئی اے کی حراست میں ہیں۔
کئی سیاسی مبصرین کے خیال میں پاکستان پیپلز پارٹی پر پر کچھ مقتدر حلقوں کی طرف سے دباؤ ہے کہ وہ پی ٹی آئی کی حکومت کے لیے مسائل کھڑے نہ کرے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کے خیال میں پی پی پی پر کئی وجوہات کی بنا پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ ان میں سے کچھ وجوہات کے حوالے سے انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’مقتدر حلقے چاہتے ہیں کہ پی پی پی متحدہ حزبِ اختلاف میں کوئی فعال کردار ادا نہ کرے کیوں کہ اس سے عمران خان کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ آج پی پی پی ایوان میں پی ایم ایل این کے احتجاج کے دوران خاموش رہی۔ یہ اسی دباؤ کا نتیجہ ہے۔ غیر مرئی طاقتیں چاہتی ہیں کہ پی ٹی آئی کو فری ہینڈ ملے جس کے لیے پی پی پی کو دباؤ میں رکھنا ضرور ی ہے تاکہ وہ متحدہ اپوزیشن کو مضبوط نہ کر سکے۔ دوسرا مسئلہ کراچی میں رینجرز کو اجازت دینے کا ہے۔ پی پی پی پر دباؤ رکھا جائے گا تو وہ رینجرز کو اجازت دیتی رہے گی کہ وہ کچھ معاملات میں پولیس کے اختیارات استعمال کرے۔ ‘‘
ان کا کہنا تھا کہ پی پی پی کے لیے آنے والے دنوں میں مزید مشکلات پیدا ہوں گی۔ ’’میرے خیال میں جس جے آئی ٹی کو بنانے کی بات کی جارہی ہے اس میں مزید انکشافات ہوں گے۔ کیوں کہ بلاول کے خلاف کوئی کرپشن کا کیس نہیں۔ اس لیے ممکن ہے کہ آصف علی زرداری، ان کے قریبی ساتھیوں اور پی پی پی کے دیگر رہنماؤں کے خلاف بھی مقدمات کھولیں جائیں۔‘‘
کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ زرداری کے خلاف کارروائی اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ پارٹی کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے اور یہ کہ یہ کارروائیاں سیاسی رہنماؤں کو ‘مائنس‘ کرنے کی پالیسی کا تسلسل ہے۔ اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے تجزیہ نگار ڈاکڑ توصیف احمد خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اسٹیبلشمنٹ فیصلہ کر چکی ہے کہ تمام سیاسی قیادتوں کو ہٹایا جائے۔ پہلے نواز کوہٹایا گیا اور اب زرداری کی باری ہے۔ وہ ملک میں نئی پاپولسٹ قیادت لانا چاہتے ہیں تاکہ ان کو وہ آسانی سے کنڑول کر سکیں۔ اس لیے وہ پی پی پی پر دباؤ برقرار رکھیں گے۔ پی پی پی نے شہباز کو بھی بطور قائدِ حزبِ اختلاف اسی لیے قبول نہیں کیا کیوں کہ اسٹیبلشمنٹ اس بات کے خلاف تھی کہ قائدِ حزبِ اختلاف نون لیگ کا ہو۔‘‘
لیکن پی پی پی آج ایوان میں خاموشی اختیار کرنے کی وجہ کچھ اور بتاتی ہے۔ پارٹی کے مرکزی رہنما اور سابق وزیرِ مملکت برائے صنعتِ و پیداوار آیت اللہ درانی نے اپنی پارٹی کا موقف دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم آج کسی دباؤ کی وجہ سے خاموش رہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم ایوان میں نواز شریف کی تصویر لیے کھڑے ہوتے یا پھرمیاں صاحب کے حق میں نعرے لگاتے۔ احتجاج ن لیگ والے کر رہے تھے۔ ہم اس کا کیسے حصہ بن سکتے ہیں لیکن جب کوئی اجتماعی مسئلہ ہوگا تو ہم اس پر بھر پور اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے۔‘‘
تاہم آیت اللہ درانی نے ایک اور حوالے سے پارٹی پر دباؤ کا تذکرہ کیا۔ ان کا کہنا تھا، ’’آنے والے کچھ مہینوں میں پاکستان اور ایران کے تعلقات سمندری حدود کے حوالے سے خراب ہو سکتے ہیں۔ کیوں کہ پی پی پی نے ہمیشہ پڑوسی ممالک سے بہتر تعلقات رکھنے کی وکالت کی ہے، تو ایسے ممکنہ کشیدہ ماحول میں پی پی پی ان تعلقات کو بہتر کرنے میں کردار ادا کر سکتی ہے۔ کچھ قوتیں چاہتی ہیں کہ پی پی پی یہ کردار ادا نہ کر پائے ۔ اسی لیے اس کی قیادت کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔ لیکن یہ رویہ ملک کے لیے بہتر نہیں ہے۔‘‘