تحریر : جاوید صدیقی پاکستان ایک ایسی ریاست ہے جس کے وجود کا نظریہ خالصتاً اسلام تھا کیونکہ اُس دور میں انگریز کے جانے کے بعد مسلمانوں کو صرف یہی فکر کھا رہی تھی کہ ہندو برسرا اقتدار آکر مسلمانوں سے انتہائی ناروا سلوک کریں گے بلکہ غلام بلا کر رکھ دیں گے کیونکہ مسلمان ہندوؤں کے مقابلے میں اقلیت میں تھے یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ اقلیت کی سب سے بڑی جماعت ہوگی لیکن جو آزادی کا سکون ہے وہ کبھی بھی اقلیت میں میسر نہیں، آزادی کی قدر کوئی اُس پرندے کا مشاہدہ کرکے بھی سمجھ سکتا ہے جو پنجرے میں بند بھوکا پیاسا بے بس مالک کے ہاتھوں ہوتا ہے ، مالک اگر لاکھ اُسے اچھی خوراک بھی کھلا دے مگر قید پرندہ مرجھایا رہیگا آزادی کی فضا میں بھوک و پیاس کا احساس اسے تھکا نہیں سکتا کیونکہ آزادی کی نعمت کے سبب وہ اپنی من سے خوراک تلاش کرسکتا ہے اور جہاں چاہے سکون سے رات گزار سکتا ہے لیکن انسان پرندوں سے کہیں زیادہ معتبر ہے کیونکہ انسان کو اللہ نے اشرف المخلوقات کا درجہ بخشا ہے ،یہی انسان ہے جس کو زیر زمین اور آسمان کی کھوج لگانے، اللہ کی نعمتوں کو تلاش کرنے، تحقیق ، تلاش ، مشاہدہ،فکر،سوچ،ذہن کو صحیح استعمال کرنے کیلئے حکم فرمایا ہے ، رب العزت اپنے بندوں سے انتہائی محبت و پیار کرتا ہے اسی لیئے انسان پر اپنی رحمت و فضل و کرم کی بارش برساتا رہتا ہے لیکن ظالم و جابر، ضدی کو پسند نہیں کرتا۔ رب کو عاجز اور انکسار بندے پسند ہیں،رب الکائنات تمام انسانوں کا رب ہے اُس کی نظر میں تمام بندے اُسی کے ہیں یہ الگ بات ہے کہ ان بندوں میں رب العزت کو اپنے پیارے حبیب ﷺ کی امت سب سے زیادہ پسند ہے اور اُس نے اپنے حبیب ﷺ کے صدقے امت محمدی کو سب سے افضلیت بخشی ہےاس کی وجہ نبی کریم ﷺ کی رحمت ہے۔
آپ ﷺ نے اللہ کے دین کو اس طرح پھیلایا کہ کفار سمیت مشرکین بھی آپ ﷺ کی ذات مبارکہ کو سب سے زیادہ معتبر کہنے پر مجبور ہوئے، عظیم المعتبر، روح الامین، سرورکائنات حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی ہم امت ہونے کا اعزاز رکھتے ہیں لیکن یا ہم نے اپنے اعمال سے ثابت کیا؟؟؟ کیا ہماری زندگیاں آپ ﷺ کے بتائے گئے اصولوں پر محیط ہیں ؟؟؟ کیا ہم نے قبل از اسلام کی برائیوں کو اپنایا نہیں ؟؟؟ کیا ہم نے دیگر انبیا کرام کی امت کے غلیظ حرکات کو اپنایا نہیں ؟؟؟ یقیناً ہر پاکستانی کا جواب یہی ہوگا کہ ہم نے ہر برائی اپنائی ہے مگر اپنے حبیب ﷺ کے اسوہ حسنہ کو بھلا دیا گویا ہم نام نہاد مسلمان بن کر رہ گئے ہیں۔!! معزز قائرین! آج میں نے اپنے عنوان کا موضع اس لیئے سخت رکھا ہے کہ حقیقت کو سامنے لاسکوں ،اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری قوم بے حس ہوچکی ہے اور قوم کی بے حسی کے سبب ہمارے لیڈر وں نے بے خیرتی کا لبادہ اوڑھ لیا ہے۔!!معزز قائرین! جیسی روح ویسے فرشتے، جیسی کرنی ویسی بھرنی یہ وہ حقیقت ہیں جس کا کوئی انکار نہیں کرسکتا، تمہارے اعمال تمہارے لیڈر ہیں (حدیث:مجمع الرواید)؛ بدبخت ترین وہ شخص ہے جس کی عزت لوگ اس کے شر سے بچنے کی وجہ سے کرتے ہیں(حدیث:مسلم شریف)۔! گنہگار لوگوں کے مرتے وقت ان کی روح جہنم کے فرشتے نکالتے ہیں جبکہ نیک لوگوں کی روح جنت کے فرشتے نکالتے ہیں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت یحییٰ علیہ السلام، حضرت نوح علیہ السلام، حضرت داؤد علیہ السلام اور دیگر انبیا کرام کی امتوں میں جو جو برائیاں پائی جاتی تھیں جن کا قرآن الحکیم و لفرقان المجید نے ذکر کیا ہے آج پاکستانی قوم کے اکثریت اُن تمام برائیوں میں ملوث ہے، یہی اکثریت ہمارے لیڈران میں بھی پائی جاتی ہے، تمام اسمبلیوں کے اکثر منتخب ممبران برائیوں کی لت میں لگے ہوئے ہیں، یہ حقیقت ہے کہ عوام کی اکثریت برائی میں مبتلا ہونے کے سبب نیک لوگ معاشرے میں دب کے رہ گئے ہیں یہی وجہ ہے کیہ ہمارا نظام بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکا ہے، اسی لیئے یہاں قانون کی خلاف ورزی پر فی الفور سزا کا عمل زائل ہوچکا ہے بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ یہاں رشوت غنڈہ گردی کا راج ہے،جو جتنا بڑا اثر رسوخ رکھتا ہے وہ اسی قدر گمراہ اور بھٹکا ہوا ہے، پاکستان اس وقت معاشرتی اخلاقی جنگ میں مبتلا ہے یہ جنگ برائی کے ہاتھوں کامیاب ہوچکی ہے ، عوام کی بے حسی اور اللہ اس کے رسول سے دوری نے ہی انہیں بے حس کردیا ہے ، اکثریت عوام میں خوف خدا ہی نہیں رہا خاص کر سرکاری اداروں میں بیٹھے لوگ اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھانا اپنا حق سمجھتے ہیں، شریف النفس انسان کا جینا کرپٹ سرکاری ، نیم سرکاری، کارپوریشن کے ادروں میں تعینات لوگوں نے نہ صرف قوم کا جینا محال کردیا بلکہ پاکستان کی ساکھ کو برباد کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے، اینٹی کرپشن کا ادارہ ہو یا پولیس کا محکمہ ، کسٹم کا ادارہ ہو یا انکم ٹیکس کا، کے پی ٹی ہو یا کے ای ایس سی، پی ٹی سی ایل ہو یا گیس کا ادارہ کون سا ادارہ ایسا ہے جو عوام سے لوٹ مار کرنے میں پیچھے رہ گیا ہو ، عدالتیں بھی ان کے سامنے بے بس نظر آتی ہیں، وڈیروے، جاگیردار، سرمایہ دارکون سے ایسے مالدار لوگ ہیں جو دولت کی ہوس میں اوندھے پڑے ہوئے نہ ہوں۔
عوام کسی بھی شعبے میں ہو اپنی اپنی جگہ ہر ناجئز کام کرتے نہ شرم محسوس کرتی ہے نہ خوف خدا رکھتی ہے ،پاکستانی معاشرہ رشوت ،جھوٹ، اقربہ پروری اور حق تلفی کی وجہ سے بے پناہ برائیوں میں پھنس کر رہ گیا ہے ، مذہب مسلکوں کی ڈرورں میں الجھ کر رہ گیا ہے ایک عام انسان کیلئے عبادت کرنا مشکل بن گیا ہے ہر کوئی قرآن کی تفصیل اپنے اپنے مقصد کے تحت کرنے میں مصروف ہے ، بس اپنی ذات کیلئے دین کو استعمال کرنا ہر ایک کا مشن بن گیا ہے ،تجارت ہو یا پیداوار، خرید و فروخت ہو یا معاملات گویا زندگی کے ہر لمحہ ہر ساعت میں جھوٹ و فلاس کا عمل لازم و ملزوم بن چکا ہے، یہی نہیں بلکہ اغلام بازی، زنا کاری، رشوت، کرپشن، بد عنوانی، لاقانیت، غنڈہ گردی، بے راہ روی بھی سر چڑھ کر دوڑ رہی ہے حالت تو یہ ہے کہ تھانوں میں ساز بایاں اس قدر ہیں کہ کوئی بھی مقدمہ اپنی اصل حالت میں پیش نہیں کیا جاتا، منصفین اسی فکر لاحق میں مبتلا ہیں کہ انصاف کس طرح فراہم کریں ، تھانے کے تفتیشی افسران ایمان کی دولت سے خالی ہوچکے ہیں،کمزور کے خلاف اس قدر کئی مجھوٹے مقدمے ٹھونک دیئے جاتے ہیں کہ وہ اپنے مقدمہ سے ہاتھ اٹھانے پر مجبور ہو جاتا ہے گویا ظلم و بربریت پورے پاکستان میں رقص کررہی ہو ،بد ترین معاشرہ بن کر رہ گیا ہے اور بد ترین نظام ریاست چل رہی ہے ، اٹھانوے فیصد پاکستانی سیاسی لیڈران اس قدر بے خیرت ہوگئے ہیں کہ اپنے ہی ووٹروں کو دھوس دھمکی دیتے ہوئے ذرا سی بھی فکر نہیں کرتے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ وہ جس طرح منتخب ہوئے ہیں دوبارہ بھی منتخب ہوجائیں گے کیونکہ الیکشن کمیشن مین زر غلام بیٹھے ہیں وہی نہیں چاہتے کہ نظام انتخاب شفاف ہو انہیں اپنی کرسی اور مراعات کی فکر رہتی ہے انہیں نہ ملک و قوم کا درد ہے اور نہ ہی موت کے بعد جواب دینے کا۔
معزز قائرین! دور حاضر میں میڈیا نے جس قدر ترقی کی ہے وہ اس صدی کا نیا باب ہے لیکن اس میڈیا میں جس قدر جھوٹ اور مکاری کا ثبوت دیا جاتا ہے اگر میڈیا بھی اپنا قبلہ درست کرلے تو یقیناً پاکستانی معاشرے اور نظام ریاست کو درست کیا جاسکتا ہے، ہمارے میڈیا میں کام کرنے والے لوگوں کا بھی کوئی حال نہیں ،مالکان کسی کو آسمان پر بیٹھائے ہوئے ہیں تو کسی کو اس قدر گراتے ہیں کہ گھر کا خرچہ چلانا محال بن جاتا ہے ، میڈیا میں تنخواہیں انتہائی بے ترتیب ہیں ،اینکرز، رپوٹرز،ڈائریکٹر نیوز، ایگزیکٹیو پرڈیوسر ، ایس وی پی، وی پی کی تنخواہیں کئی کئی لاکھ پر محیط ہیں جبکہ مین پاور یعنی ان سے کم درجہ کام کرنے والے چند ہزار پر محیط ہیں ، تقرر ہو یا ترقیاں کوئی زاویہ نہیں ،جس اعلیٰ افسر کی مرضی جسے نواز دے آسان لفظوں میں اندھا بانٹے ریوڑیاں اپنوں اپنوں کو یا یوں کہ لیجئے نور چشم نواز دیئے جاتے ہیں لیکن میڈیا میں بھی دیکھا یہ جارہا ہے کہ قابلیت، تجربہ، سینیارٹی کو نظر انداز کرکے من پسند کو نوازنے کا سلسلہ جو شروع ہوگیا ہے وہ میڈیا کی ساکھ کو برباد کرکے رکھ دے گا ، اس معاملے میں صحافی تنظیمیں ہوں یا میڈیا ایسوسی ایشن تمام کی تمام خاموش ہیں شائد وہ بھی اس گناہ میں شریک نہ ہوں بحرحال اگر میڈیا اپنے منصب سے انصاف کرے تو یقینا ً ہمارے معاشرے کیساتھ ساتھ ہماری سیاسی و اقتصادی صورتحال کی بہتری کیلئے سود مند ثابت ہوسکتی ہے!! معزز قائرین ! آج کا موضع اس قدر جامع ہے کہ تحریر ختم ہونے کو نہیں لیکن اخبار و جرائد کی جگہ کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے میں یہیں ختم کرتا ہوں، اللہ پاکستان کی قوم میں حس پیدا کردے اور غیرت مند لیڈرعائد کردے آمین ثما آمین،پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد